کیا نئے امریکی صدر کشمیر پر ثالثی کریں گے؟
تنقید ہمیشہ ناقابل برداشت ہوتی ہے، چاہے تعمیری ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارے ہاں تو ویسے ہی برداشت کی کمی ہے, دلائل کچھ بھی دے دیں لیکن حقیقت حال یہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہماری مرضی کے خلاف کوئی ایک فقرہ لکھ دے تو ہم سے وہ برداشت نہیں ہوتا. فوراََ فضول بحث شروع کریں یا مخالف رائے رکھنے والے شخص کو بلاک کردیں گے۔ یہی حال ہمارے حکمرانوں کا ہے، میڈیا کی تنقید برداشت کرنے کی ہمت نہیں. اپنی خامیاں اور کمزوریاں دُور کرنے کی بجائے تنقید کرنے والے صحافیوں کے مخالف مہم چلانے کیلئے لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ یا پھر ادارے اوُچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔سال 2020ء تو کرونا وائرس سے بچنے اورلڑنے میں گزر گیا اسی دوران حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی بھی عروج پر رہی۔ لگے ہاتھوں اپوزیشن اتحاد نے اداروں کے کردار پر بھی کھل کر تنقید کی۔ نتیجاََ عام آدمی کے ذہن میں ریاستی اداروں کا کردار مشکوک نظر آنے لگا. اس دروان بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں پر کوئی خاص دھیان نہ دیا۔ یوں تو نئے اتحاد بنانے کی باتیں ہوتی رہیں اور کچھ نئے محاذ بھی کھولے گئے البتہ پاکستان کا ایک دیرینہ مسئلہ جو آزادی سے لیکر چلا آرہا ہے جوں کا توں قائم ہے یا شاید اس میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ اگست، 2019ء کو جب مودی سرکار نے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے کشمیر میں ہندوؤں کی آبادکاری کا منصوبہ شروع کیا تو اس وقت امریکہ کے صدارتی امیدوار جوبائیڈن نے کہا تھا کہ بھارتی حکومت کو کشمیریوں کے حقوق بحال کرنے کیلئے تمام تر اقدامات لینے چاہیے۔ [ In Kashmir, the Indian government should take all necessary steps to restore rights for all the people of Kashmir. Restrictions on dissent, such as preventing peaceful protests or shutting or slowing down the internet, weaken democracy]
آئندہ چند دنوں میں جوبائیڈن امریکی صدر کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے اور آئندہ چار سال کیلئے اس عہدے پر براجماں رہیں گے۔ جوبائیڈن کے اس وقت کے بیان کے بعد سے اب تک بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں حالات بہت تبدیل ہوچکے ہیں۔ بھارت نے تیزی سے جموں وکشمیر میں آبادکاری کی ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق لاکھوں ہندوؤں کو کشمیر کے ڈومیسائل جاری کیے جاچکے ہیں۔ امید واثق ہے کہ بھارت اپنے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے جلد کشمیر میں رائے شماری کروا کر اقوام متحدہ کی شرائط پوری کرکے دنیا کو بارور کروانے میں کامیا ب ہوجائے۔ ایک سروے کے مطابق امریکہ میں مقیم 70 فیصد بھارتی امریکن شہریوں نے جوبائیڈن کو ووٹ دیے ہیں اورصدارتی مہم پر لاکھوں ڈالر بھی خرچ کیے ہیں۔ اور تو اور کملا ہیر س کے نائب صدر منتخب ہونے کے بعد تو بھارتی پھولے نہیں سماتے۔ اکثریتی بھارتی شہریوں کا یہ خیال ہے کہ وائٹ ہاؤس میں حلف برداری کی تقریب کے فوراََ بعد کملا ہیرس کو سرکاری طور پر بھارت مدعو کرکے یہ تاثر دیا جائے کہ بھارت کو امریکہ کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ (اور ہے بھی) . بھارت کے اگست 2019ء کے اقدام سے لیکر ایک طرف تو ہمارے ملک کے اندر کے حالات بھی گھمبیر رہے اور اس دوران پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر برائے نام کشمیر پر لابنگ کی لیکن نتائج سب کے سامنے ہیں۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال اور پاکستان اور چین کے گٹھ جوڑ کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن امریکی پالیسی کے برعکس کوئی بات نہیں کرینگے اور یوں ”کشمیر بنے کا پاکستان“ خواب ہی رہ جائے گا۔ کشمیر سے متعلق پاکستان کی پالیسی صرف کاغذوں تک محدود ہے اور وزارت خارجہ بھی اس سلسلے میں صرف خانہ پُری کی حد تک کام کرتی ہے۔ شاید وہ بھی بھارت کی جارحانہ خارجہ پالیسی کے آگے گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے اور بھارت مخالف اس ایجنڈے کی پالیسی کو تبدیل کرکے ملکی ترقی اور اندرونی حالات کو بہتر کرنے کی توجہ دینی چاہیے۔ اس سے قبل حکومت نے گلگت بلستستان کو صوبہ کا درجہ دینے کا تجربہ کیا ہے عین ممکن ہے اگلے مرحلے میں پاکستان کے ساتھ ملحقہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرکے صوبے کا درجہ دے دیا جائے یا چھوٹے صوبے بنا کر نئے جاری شدہ نقشے کو عملی جامہ پہنایا جائے اور جو بجٹ کشمیر بچاؤ مہم پر خرچ ہورہا تھا اسے کشمیر کی تعمیر وترقی کیلئے خرچ کیا جائے۔ ممکن ہے کہ یہ باتیں فی الحال ہضم نہ ہوں البتہ بدلتی ہوئی بین الاقوامی صورتحال کا حقیقی معنوں میں جائزہ لیا جائے تو پاکستان کو یہی کرنا پڑے گا۔ لہٰذا اس حقیقت کو جتنی جلدی تسلیم کر لیں بہتر ہے۔ کروناوائرس وباء کے بعد پاکستان کو جہاں معیشت کے چیلنجز موجود ہیں وہیں ملک کی سیاسی صورتحال بھی بہت حد تک خراب ہے ۔ اور پھر ہماری حکومت بھی تو ابھی سیکھنے کے مراحل میں ہے۔ تقریبا ڈھائی سال بعد یہ تسلیم کیا ہے کہ انہیں حالات کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ ایسے حالات میں ایک غلط فیصلہ مخدوش حالات میں چلتی معیشت کا پہیہ دھائیاں پیچھے جاسکتا ہے۔
Comments
Post a Comment