اقلیتوں کے اندر اقلیتوں کی صورتحال
شمیم محمود
دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو واضع ہوتا ہے کہ ریاست کے اندر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ نہ ملنے کا نتیجہ کسی بڑے اندرونی اور بین الاقوامی تنازعات کی صورت میں نکلا ہے۔جنوبی ایشیاء کی بڑی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، پاکستان ، بنگلہ دیش اور مالدیپ کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔اس کے علاوہ ایک ارب سے زائد آبادی والے ہمسایہ ملک بھارت میں پندرہ سے بیس کروڑ اسلام کے ماننے والے آباد ہیں۔ اگرچہ بھارت سیکولر ملک ہونے کا دعویدار ہے تاہم 80 فیصد سے زائد ہندﺅ آباد ی ہونے کی وجہ سے انتہاپسند ہندوﺅں نے وہاں بسنے والی اقلیتوں کا جینا محال کررکھا ہے۔ بنگہ دیش میں ہندوﺅں ، بدھ مت ، مسیحیوں اور چٹاگانگ کی ترائیوں میں آباد مقامی قبیلوں کے خلاف امتیازی سلوک جاری ہے ۔ اسی طرح سری لنکا میں سنہالی بدھ مت کے پجاریوں کے احساس برتری کی وجہ سے وہاں پر بسنے والے تامل بدسلوکی کا شکار ہیں۔ اسی طرح نیپال میں بھی عدم برداشت کا کلچر پہاڑوں اور ترائیوں میں مقیم بڑی آبادی کو شہری حقوق دینے سے انکار کی صورت میں نظر آتا ہے۔ پاکستان میں نہ صرف مسلمانوں کے درمیان شیعہ سنی فرقہ وارانہ فسادات کا طویل سلسلہ موجود ہے بلکہ مذہبی اقلیتیں بھی امتیازی سلوک، متعصب قوانین اور تشدد کا شکار ہیں۔ جنوبی ایشیاء سمیت دنیا بھر میں مختلف نسلوں کے درمیان کھینچا تانی اور نسلی تشدد بدستور جاری ہے۔نسل پرستی، نفرت انگیزی اور مذہبی تعصب دراصل عدم برداشت کی سنگین شکل ہے۔ کسی بھی ملک کے اندر اقلیت کو تسلیم کرنا اقلیتی حقوق کے تحفظ کی سمت پہلی شرط ہے۔ تاہم بین الاقوامی سطح پر اقلیت کی کوئی واضع تعریف موجود ہیں کہ کون سا فرد یا گروپ ان حقوق کا حامل ہے۔ پاکستان میں صرف مذہبی اقلیتوں کو تسلیم کیا جاتا ہے تاہم دیگر کمزور طبقے مثلاً بلوچ ، سندھی یا دیگر قومیتوں کو اقلیت تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ اسی طرح بھارت میں ہندوﺅں میں موجود دلت اور دیگر نیچ ذات کے ہندوﺅں کو اگرچہ اقلیت تسلیم نہیں کیا جاتا تاہم وہ لوگ تعصب اور امتیازی سلوک کا شکار ضرور ہوتے ہیں۔ لہذا اقلیت کو سمجھنے کیلئے جہاں زبان، ثقافت ، مذہب اور نسل اس کے عوامل ہیں لیکن اس سے زیادہ اہم عوامل ”کمزوری“ اور ”کمتری“ کی کیفیت ہے۔ یو ں پاکستان میں اگرچہ ہندو اقلیت میں شمار ہوتے ہیں تاہم ہندوﺅں میں موجود دلت یا نیچ ذات کے ہندو ، اقلیتوں کے اندر کمزور اور کمتر سمجھے جاتے ہیں بالکل اسی طرح مسیحیوں میں موجود کمزور طبقہ خصوصا سینٹری ورکرز کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔اور یوں یہ طبقہ مزید اذیت کا شکار ہے۔ ریاست کے اندر ایسے افراد کی الگ سے کوئی شناخت موجود نہیں ۔لہذا جنوبی ایشیاء میں اقلیتوں کے تحفظ اور باہمی رواداری کیلئے ایک علیحدہ ماڈل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبہ سندھ اور پنجاب کی سرائیکی بلیٹ میں آباد ہندوﺅں میں نچلی ذات کے زیادہ تر ہندو اور پاکستان بھر میں موجود مسیحی طبقہ خاکروب یا نچلی سطح کے کام کرکے روزی روٹی کماتا ہے۔ اور اس وجہ سے نہ صرف اکثریتی آبادی بلکہ اپنے مذہب کے دیگر افراد کے ہاتھوں اذیت برداشت کررہاہے۔ ایک طرف تو یہ حالات ہیں کہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہیں اور مہنگاہی کے اس عالم میں ایک شخص کے کام کرنے سے بہت کم آمدن ہوتی ہے لہذا گھر کے دیگر افراد کو ہاتھ بٹانے کی غرض سے گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ ایسے میں ان کی عورتوں کو مفت کا مال سمجھ کردست درازی کرنامعمول کا کام ہے ، انکار کی صورت میں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کی ناک کے نیچے ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں وفاقی دارالحکومت میں پیش آیا ۔ جس میں گھریلو ملازمہ کو اس وقت اسلام آباد کی بڑی شاہراہ پر سرعام قتل کردیا گیا جب وہ کام پر جانے کیلئے سڑک پر پبلک ٹرانسپورٹ کا انتظار کررہی تھی کہ محلے کے اوباش نوجوان نے محض اس وجہ سے گولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا کہ اس کے ساتھ جانے سے انکار کیا تھا۔ لیکن اربابِ اختیار کو ایک غریب مسیحی لڑکی کے قتل سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ایسے واقعات اب معمول بن چکے ہیں اور غریب کو عزت سے جینے کا کوئی حق نہیں ۔ اور اس کویہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے تن کا اپنے من کے ساتھ فیصلہ کرسکے۔ ستم تو یہ ہے کہ ایسے غریب غربا ءکے نام پر سماجی سیوک عطیات تو اکٹھے کرتے ہیں مگر ان کی حالت سدھنے کا نام نہیں لیتی البتہ کچھ ہی عرصہ کے بعد سماج سیوک کے حالات ضرور تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح سے مذہب کے نام پر کاروبار کرنے والے افراد بھی ان کی مدد کیلئے کوئی لائحہ عمل تیار کرنے کی بجائے چندہ ملنے کی امید پر رہتے ہیں۔ گزشتہ عرصے کے دوران صوبہ سندھ میں موجود نچلی ذات کے بعض ہندوﺅں نے محروم طبقے کے حقوق کیلئے تحریک کا آغاز کیا اسی طرح مسیحیوں میں موجود بعض لوگوں نے خاکروب طبقے کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا شروع کی۔ فی الحال قابل اطمینان امر یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ایک حصے میں اقلیتوں کے حقوق کیلئے آگاہی کی ایک مہم جاری ہے۔ تاکہ اقلیتوں اور مقامی باشندوں کو مرکزی دھارے میں لایا جائے ۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہی محسوس ہوتا ہے کہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے والا یہ طبقہ نسل درنسل اسی چکی میں پستا رہے گا جب تک ان کے اندر سے کوئی آواز نہیں نکلتی جو مستقبل قریب میں تو ابھرتی نظر نہیں آتی۔
Comments
Post a Comment