جبری تبدیلی مذہب اور عدالتی نظام
جبری تبدیلی مذہب اور عدالتی نظام
شمیم محمود
غربت بذات خود ایک ایسی بیماری ہے ، جس سے دیگر بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ پاکستان کی اکثریتی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ایسے میں اگر کسی غریب کا تعلق کسی مذہبی اقلیت سے ہوتو مسائل اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک مسیحی خاندان کراچی کینٹ ریلوے کالونی کے کوراٹرز میں آباد ہے۔ گھرکا سربراہ راجہ لال مسیح، ڈرائیور کے طور پر ملازمت کرتا ہے جبکہ اس کی بیوی گھروں میں کام کاج کرتی ہے۔ ان دنوں بین الاقوامی خبر رساں اداروں اور سوشل میڈیا پر اس خاندان کی 13سالہ کم سن بچی ”آرزو راجہ“ کے مبینہ اغواء، جبری تبدیلی مذہب اور بچی کی عمر سے تین گنا بڑے عمر کے شخص کے ساتھ شادی کے چرچے ہیں جبکہ مقامی میڈیا قدرے خاموش ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں ادارے سرکار کی منشاء پر متحرک ہوتے ہیں اور انصاف امراء، حکمرانوں اوراسٹیبلشمنٹ کی لونڈی ہے، یہاں فیصلے آئین وقانون کے مطابق نہیں بلکہ مذہب، دھونس اور لالچ کے زیرِ اثر ہوتے ہیں جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی غیر جانبدارانہ تحقیقات نہیں کرتے ، ان واقعات کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ اگرچہ مذہب ہر انسان کا ذاتی مسئلہ ہے مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا مذاہب کی بنیاد پرتقسیم ہے ۔ حتی کہ سیکولر طرز حکمرانی کے نام نہاد دعویدار ممالک میں بھی مذہب کی بنیاد پر تقسیم موجود ہے ۔ یہاں بھارت اور بھارت کے زیرِ اثر کشمیر میں ہونے والے مظالم کی مثال لاگو نہیں ہوتی۔ ایک تو پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتیں تقسیم سے پہلے کی یہاں آباد ہیں اور انہوں نے ملک کی تعمیر وترقی اور حفاظت کیلئے اپنی جانیں قربان کی ہیں لہٰذا ان کی حّب الوطنی پر شک کرنا اور ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہے۔ پاکستان کی سالمیت ، حفاظت اور حب الوطنی اتنی ہی مقدم ہے جتنی کسی دوسرے شہری کی ۔ دوسرا یہاں پر رہنے والے افراد میں سے کوئی بھی آزادی یا علیحدگی پسند تحریک میں ملوث نہیں ۔ باوجود اس کے اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ملک میں مذہب، علاقے، زبان اور صنف کی بنیاد پر تقریق موجود ہے ۔ کراچی کے لڑکی کے والد کے بیان کے مطابق ان کی 13 سالہ لڑکی کو مقامی 44 مسلمان شخص نے ورغلا کر اغوا کیا اور بعد میں پولیس نے ان کو یہ کہہ کر بھگا دیا کہ لڑکی نے مذہب تبدیلی کر کے نکا ح بھی کرلیا ہے اور تو اور عدالت نے بھی لڑکی کی کم عمری کے سرٹیفیکیٹ کو تسلیم نہیں کیا اور اغواء کار اظہر علی کو عدالتی تحفظ دیا۔ اب حالت یہ ہے کہ نہ تو لڑکی کے والدین کے پاس وکیلوں کے ادا کرنے کی بھاری رقوم موجود ہے اور نہ ہی عدالت سے انصاف کی امید۔ اس سے قبل ایسے درجنوں واقعات رونما ہو چکے ہیں جس میں اعلی عدالتوں نے ہندوﺅں ، سکھوں اور مسیحیوں کی بچیوں کو انصاف سے محروم کیا گیا ہے۔ اب پیپلز پارٹی جیسی لبرل خیالات کی دعویدار سیاسی جماعت نہ صرف صوبہ سندھ میں حکمران ہے بلکہ صوبے میں جبری تبدیلی مذہب کا قانون بھی منظور کر چکی ہے وہ بھی متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران پاکستان میں لالچ اور جبر کے علاوہ اسلام قبول کرنے کی کوئی مثال موجود نہیں جبکہ سنٹر فار سوشل جسٹس کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سولہ برسوں کے دوران 55 مسیحی لڑکیوں کو مبینہ جبری مذہب تبدیل کروایا گیا ہے اس کے علاوہ کئی ہندﺅ لڑکیوں کے جبری تبدیلی مذہب کے واقعات موجود ہیں۔ ان میں سے اکثریت کم عمر لڑکیوں کی ہے۔ حیرانگی اس بات پر ہے کہ آخر اسلام کی تبلیغ کا اثر صرف کم عمر غیر مسلم لڑکیوں پر ہی کیوں ہوتا ہے ، لڑکو ں اور پختہ عمر کی عورتوں پر کیوں کم ہوتا ہے۔ دوسری بات کہ مذہب کی تبدیلی کے بعد اس عورت کو بیٹی یا بہن بنا کر کیوں نہیں رکھا جاتا ، فورا نکاح ہی کیوں کیا جاتا ہے؟ یوسف یوحنا سے محمد یوسف اور رومینہ خورشید عالم کے تبدیلی مذہب کے پیچھے بہت سی خبریں موجود ہیں جو بوقت ضرورت لکھی جاسکتی ہیں ۔ مذہبی ہم آہنگی کرتار پور راہداری کھولنے یا اسلام آباد میں ہندوؤں کے مندر کھولنے کی اجازت سے نہیں ہوگی بلکہ ایسی گھناﺅنی حرکات سے بھی پاکستان کی بیرونی دنیا میں بدنامی ہوتی ہے۔ جبری تبدیلی مذہب، مذہبی بنیاد پر تفریق اور امتیازی سلوک اور استحصال کئی عشروں سے جاری ہے ۔ لولی لنگڑی وزارت انسانی حقوق سے کسی بھلائی کی امید رکھنا تو فضول ہے اور پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو کسی خاص مقصد کی خاطر مختلف طریقوں سے تقسیم کیا گیا ہے۔ایسے میں مذہبی اقلیتوں کو اپنے حقوق کے حصول مذہب کی بنیاد پر ہونے والی ناانصافیوں اور امتیازی سلوک اور کم عمر بچیوں کے اغو ا ءاور جبری تبدیلی مذہب اور مذہبی آزادی کے خلاف ایک لائحہ عمل تیار کرنے اور متحد ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ المیہ یہ ہے کہ نابالغ بچیوں کو ایک دن میں مذہب تبدیل کروا کر نکاح کر دیا جاتا ہے اور بعد میں ان بچیوں کے والدین سے بھی نہیں ملنے دیا جاتا۔ عدالتیں یک طرفہ فیصلہ سنا دیتی ہیں اور ان بچیوں کے خاندانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بے بس ، لاچار اور سسکیوں کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
بہت سادگی اور نفاست سے سچ لکھا ھے
ReplyDelete