شاہ دولے کے چوہے
شاہ دولے کے چوہے
شمیم محمود
شاہ دولے کے چوہوں کی کہانی سے آپ لوگ واقف ہونگے لہٰذا مزید اس کی تفصیلات بتانے کی ضرورت نہیں۔ بس اتنا کہنا ہے کہ یہ لوگ وقت اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ قدوقامت اور جسامت میں تو بڑھتے جاتے ہیں مگر ان کی سوچ محدود رہتی ہے ۔ صرف وہ بولتے ہیں جو کہا جاتا ہے اور وہی کچھ کرتے ہیں جو کرنے کا کہا جاتا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے ہم بھی ویسے ہی ہیں کیونکہ ہمیں ایسا بنا دیا گیا ہے ۔ہماری سوچ کو زبردستی محدود کردیا گیا ہے۔ اور اگر اس سوچ سے زیادہ سوچنا شروع کردیں تو بے بنیاد الزامات ، مار پیٹ یا پھر تھانے کچری کے چکر لگانا پڑتے ہیں۔سکول کے زمانے سے مطالعہ پاکستان کے ذریعے یہ دماغ میں ٹھونس دیا گیا کہ علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا ۔بس پھر کیا تھا آج تک وہی چل رہا ہے ۔دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ہم نے محمد علی جناح اور محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اس سے بانیِ پاکستان کی عزّت اور احترم کا اندازہ آپ خود کرلیں۔ لیکن ہمیں یہ سب کچھ کہنے کی اجازت نہیں ، بس احترام ہم پر لازم ہے۔ اور یہ شرط بھی بعض لوگوں پر لاگو ہوتی ہے اور کچھ کو اِستثنیٰ حاصل ہے۔ اب میں اس بحث میں نہیں جاتا کہ کیپٹن (ر) صفدر کو کیوں گرفتار کیا گیا جبکہ اسی مزار پر یکم مئی، 2017ء کو موجودہ وزیراعظم عمران خان نے دھواں دھار تقریر کی تھی اور پجاریوں نے نعرے بازی بھی کی. مگر اس وقت کسی کو مزارِ قائد کا تقدّس یاد نہیں آیا تھا اور تو اور اِسی مزار پر غیر اخلاقی سرگرمیوں کی خبریں شائع ہوچکی ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ اس معاملے میں ہماری عدالتیں بھی مذہبی عقائد، سیاسی وابستگی یا اداروں کے ساتھ روابط کی بنیاد پر سلوک کرتی ہیں۔ معاشرے میں مذہبی تعصّب اور عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ کراچی کے ایک ادارے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں ایک سیمینار کو صرف اس وجہ سے منسوخ کردیا گیا کہ وہاں پر ماہر معاشیات ڈاکٹر عاطف میاں نے طلباء کے ساتھ معیشت کے موضوع پر بات کرنا تھی۔ اس سے قبل وفاقی حکومت عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کمیٹی کی رکنیت سے صرف اس بنیاد پر علیحدہ کرچکی ہے کیونکہ اس کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے۔ گزشتہ دنوں میں گوجرانوالہ کے غیر سرکاری تعلیمی ادارے کی دیوار پر کچھ طلباء نے پاکستان کے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کی تصویر پر کالے رنگ کا سپرے کردیا کیونکہ اس کی تصویر ٹیپوسلطان اور علامہ اقبال کی تصاویر کے ساتھ آویزاں کی گئی تھی۔ مطالعہ پاکستان میں مسلمان حملہ آوروں کے بارے میں یہی پڑھایا جاتا رہا ہے کہ اس نے برصغیر پر حملے کرتے وقت انہوں نے ہندوؤں کے کئی مندر توڑے تھے (جو کہ مذہبی رواداری کی عظیم مثال ہے، البتہ یہ کام اگر بابری مسجد پر ہو تو غلط ہے)۔ اس کے علاوہ محمد بن قاسم کی جو کہانیاں پڑھائی جاتی ہیں وہ ایک الگ کہانی ہے۔ اب ڈاکٹر عبدالسلام کی سائنسی خدمات تو مختلف مذہبی عقیدہ ہونے کی نظر ہوگئی ہیں۔ تاریخ میں غیر معمولی کارکردگی یا اعلی خدمات دینے والی شخصیات کا ادب کیا جاتا ہے ۔ بلکہ بیرونی ممالک میں باقاعدہ مجسمے بنائے جاتے ہیں اور چوراہوں اور اہم مقامات پر نصب کیے جاتے ہیں تاکہ نئی نسل یاد رکھے ۔ بانی پاکستان کا احترام سب پر لازم ہے اور اس سے متعلق کوئی دوسری رائے نہیں کہ جن لوگوں نے ملک وقوم کیلئے اعلی خدمات سرانجام دی ہیں بغیر رنگ ونسل اور مذہب ان کا احترام کیا جائے، مگر دوہرا معیارمناسب نہیں ۔ انتشار اس وقت پھیلتا ہے یا عوام بدظن ہوتی ہے جب عدالتیں یا ادارے مذہب، رنگ ونسل اور سیاسی وابستگیوں کے علاوہ اداروں کے ساتھ تعلقات کی بنیاد پر تفریق کی جاتی ہے۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں مگر یہاں ایک حد سے زیادہ بولنے یا لکھنے کی اجازت نہیں ۔ سوچنے پر تو پابندی عائد نہیں کی جاسکتی مگر سرعام اظہار پر ضرور پابندیاں عائد ہیں۔آزادی رائے کے نام پر دین اسلام پر بات کرنا تو جرم ہے مگر دوسرے مذاہب کی تضحیک کرنا واجب ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بین الاقوامی سطح پر واویلا کرنا جائز ہے مگر پاکستان میں رنگ ونسل، علاقے یا مذہب کی بنیاد پر ہونے والی زیادتی ، معصوم لڑکیوں کا اغوا، تبدیلی مذہب، غیر منصفانہ تقسیم اور تفریق پر بات کی جائے تو غداری اور ملک دشمنی جیسے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ یہاں چرچز اور بستیوں کو جلا دیا جاتا ہے اور آئے روز ہندو اور مسیحی لڑکیوں کو زبردستی اغواء اور جبری مذہب تبدیل کروا کر نکاح کرائے جاتے ہیں مگر سینیٹر انوارالحق کاکڑ کہتے ہیں جبری تبدیلی مذہب کے کوئی ثبوت نہیں ملے. دوسری جانب عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے انہی کے حق میں ہوتے ہیں. جہاں دوسر ے مذہب سے وابستگی کا لفظ طعنہ اور تضحیک کے طور پر استعمال کیا جائے اور بقول بلاول بھٹو زرداری "مارتے بھی ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے"۔
Comments
Post a Comment