پارلیمانی کمیٹی نے تحفظ جبری تبدیلی مذہب کا بل مسترد کر دیا.
اسلام آباد: پارلیمانی کمیٹی برائے تحفظ اقلیتی امور اور جبری تبدیلی مذہب کے اقلیتی ممبران کا کہنا ہے کہ کمیٹی کی جانب سے جبری تبدیلی مذہب کے بل کو مسترد کیے جانے سے حکومت کا اصل چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے. چیئرمین کمیٹی نے بل میں ترامیم کرنے کی متعدد تجاویز کے باوجود تحریری فیصلہ پڑھ کر سنا دیا. جس سے واضح ہوتا ہے کہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں. ان خیالات کا اظہار ایوان میں اقلیتی ممبران نے کمیٹی کی جانب سے بل مسترد کرنے کے بعد کیا. تفصیلات کے مطابق بدھ کے روز ایوان میں پارلیمانی کمیٹی برائے تحفظ اقلیتی امور اور زبردستی مذہب تبدیلی نے جبری مذہب تبدیلی کے بل کو حکومتی اور اقلیتی رہنماﺅں کی ڈھائی گھنٹے کی طویل بحث کے بعد مسترد کرتے ہوئے چیئرمین کمیٹی لیاقت تراکئی نے کہا ہے کہ موجودہ قوانین کے تحت جبری مذہب تبدیلی کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں اور ریاست تحفظ برائے اقلیتوں کے لیے کوئی بل لانا چاہے تو وہ اقدامات کر سکتی ہے . حکومتی وزراء نے موقف اختیار کیا کہ اقلیتوں کے حقوق کی ریاست پاسداری کر رہی ہے اور آئندہ بھی کریگی . وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ موجودہ بل کو پرائیویٹ ممبر نے پیش کیا تھا جس کو وزارت مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل نے 43اعتراضات لگا کر مسترد کر دیا ہے ،یہ بل پاس ہونے سے اقلیت اور مسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا ہونے کے ساتھ منافرت پھیلے گی. جماعت اسلامی نے بل کو پہلے حکومت سے نتھی کرنے کی کوشش کی تاہم حکومت کی جانب سے اعتماد میں لینے کے بعد بل کو مسترد کردیا. تاہم اس موقع پر اقلیتی رہنماﺅں میں سے ڈاکٹر رمیش کمار نے ووٹنگ کے ذریعہ بل پاس کرانے کی تجویز پیش کی تاہم چیئرمین کمیٹی نے ان کی کسی تجویز کو نہ سنا ، جبکہ دیگر اقلیتی رہنماﺅں نے حکومت سے استدعا کی کہ عمر کی حد اور دیگر اعتراضات والے حصوں کو ہذف کر کے پرائیویٹ بل کی بجائے حکومت ایک بل لائے تاکہ اقلیتوں میں احساس محرومی کا خاتمہ ہو. کمیٹی اجلاس میں حکومتی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کے درمیاں گرما گرمی بھی پیدا ہوئی تاہم چیرمین کمیٹی نے معاملہ کو سلجھا دیا. گزشتہ روز سینٹر لیاقت ترکئی کی زیر صدارت کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سینٹر دانش کمار،مشتاق احمد،مولوی فیض محمد،رکن اسمبلی رمیش کمار،جائی پرکاش،لال چند،کیشو مل ،رمیش لال،نوید عامر جیوا کے علاوہ وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری،وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری،وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان و دیگر نے شرکت کی،اجلاس میں رمیش کمار نے کہا کہ اس کمیٹی کو ختم کیا جائے کیونکہ اب کام انسانی حقوق کی وزارت کے سپرد ہے. ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ کمیٹی فائنل فیصلہ کرے اور جو کچھ ہمیں کہا گیا وہ ہم نے کر دیا ،میاں مٹھو نے اسلامی نظریاتی کونسل میں کہا کہ ایسے ایشو درپیش نہیں ہیں ،اگر ایسا ہے تو پھر کمیٹی فیصلہ کرے. وفاقی وزیر مذہبی امور نے کہا کہ اس میں قانون سازی کہ ضرورت نہیں۔ بلکہ اس حوالہ سے قوانین موجود ہیں،اور اس پر عمل درآمد کرایا جائے،لال چند نے کہا کہ ہم قانون سازی کرنا چاہتے ہیں تو میں نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو ہمیں اعتراض نہیں، اس پر علماء و دیگر سے مشاورت کرنا ہوگی، تاہم اب سینٹر مشتاق احمد سمیت دیگر کس سخت ردعمل آیا، اب جو بھی فیصلہ کیا جائے مشاورت سے ہونا چاہیے،اقلیتوں کے تحفظ کی بات درست ہے تو ایسا ماحول بن جائے گا کہ اس پر مزید تنازعہ ہو جائے گا،انتظامی امور،داخلہ،قانون و دیگر سے بھی مدد لی جائے گی،وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ وزیراعظم صرف مسلمانوں کے نہیں بلکہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں،ان کو اقلیتوں کی بہت فکر ہے،اس پر ایک کمیٹی بنائی گئی جس کے چیئرمین انوار الحق کاکڑ تھے آن ٹی او آرز میں قانون بنانا نہیں بلکہ موجودہ قوانین کو دیکھنا تھا کہ کہیں اس قانون میں اقلیتوں کے خلاف تو نہیں،اس کمیٹی کو چلتے رہنا چاہیے تاکہ اقلیتوں کے مسائل کا معلوم ہوتے رہیں. باہر ممالک کی تھپکی کے لیے قانون سازی نہیں بنائے جا رہے،زبردستی مذہب تبدیلی سمیت تمام ایشوز کو ڈسکس کیا جائے،علی محمد خان نے کہا کہ موجودہ قانون بنانے کے حق میں نہیں اور اس کی ضرورت بھی نہیں،جماعت اسلامی کے سینٹر مشتاق احمد نے کہا کہ حکومت کے ترجمان اور وزیر کہتے ہیں موجودہ حکومت نے عالم اسلام کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا اور یہاں سب اقلیت کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے،حکومت کی جانب سے وزیر مملکت علی محمد خان اور شیریں مزاری نے کہا کہ آپ غلط بیانی کر رہے ہیں،وفاقی وزیرمذہبی امور نے کہا کہ آپ حتمی رائے قائم نہ کریں ،جب قانون سازی ہوئی نہیں نہ کسی وزارت نے ٹیک آپ کیا،وزرا نے جماعت اسلامی کے سینٹر کو چپ کروا دیا،چئہرمین کمیٹی نے کہا کہ جب حکومت نے بل پیش کی نہیں تو پھر بحث غلط ہو گی،وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ پرائیویٹ بل آیا جس کو انسانی حقوق کی وزارت میں گیا،مشتاق احمد نے کہا کہ بل وزارت انسانی حقوق نے بھیجا ہے،جو بل ہمیں بھیجا گیا ہے،وہ اسلامی،شرعی،قانونی سمیت ہر سطح پر غلط ہے،اس بل کو انسداد بل السلام کہوں گا کیونکہ اسلام کو قبول کرنے سے روکنا ہے،اس بل پر مشاورت نہیں۔ کیا گیا،شق وار بحث ہونی چاہیے،شیریں مزاری نے کہا کہ سینیٹر مشتاق سیاست کھیلنا چاہتے ہیں،جب بل بھیجا ہی نہیں تو مشاورت کیسی،اس موقع پر حکومت اور سینیٹر کے درمیان چھڑپ بھی ہوتی رہی،علی محمد خان نے کہا کہ اس کمیٹی میں کچھ ممبران ہیں جو گزشتہ کمیٹی میں بھی تھے،اس کمیٹی نے پرائیویٹ ممبرز نے بل بنایا تو وہ انسانی حقوق کو بھیجا گیا،پھر وزارت انسانی حقوق نے وہی بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا اور وہاں سے اس کمیٹی میں آیا،اور حکومت اس بل کو رد کرتی ہے،وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے کہا کہ جبری مذہبی تبدیلی کسی صورت قبول نہیں،اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس بل پر مذہبی منافرت پھیلے گی،لال چند ملہی نے کہا کہ قومی اسمبلی میں ایک قرار داد پاس ہوئی کہ جبری مذہبی تبدیلی نہ ہو اس پر وزیراعظم نے مذمت کی کہ جبری مذہبی تبدیلی نہیں ہونی چاہیے،پھر یہ کمیٹی بنی، اور لال چند ملہی کا کہنا تھا کہ اس بل کو اسلام قبولیت سے روکنے کا جماعت اسلامی کہتی ہے ،ہم یہ کہتے ہیں کہ ایسا فورم بنایا جائے کہ جہاں مذہبی تبدیلی کو قبول کیا جا سکے، مولوی فیض محمد نے کہا کہ واحد مذہب اسلام ہے جس میں اقلیتوں کے حقوق ہیں،اسلام میں کوئی نا سمجھ ہے وہ بچہ تو اس کے والد جو کریں گے اولاد انکے تابع ہیں،اگر ایسی شرط ہے کہ اٹھارہ سال سے قبل اسلام قبول نہیں کیا جا سکتا،حضور پاک کے پاس ایک یہودی بچہ آیا کرتا تھا ایک دن وہ بیمار ہوئے تو حضور پاک انکی عیادت کے لیے گئے تو اس بچے کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور اس بچے نے اسلام قبول کر لیا،یہاں حضرت علی علیہ السلام نے کم عمری میں اسلام قبول کیا تھا اگر یہاں اٹھارہ سال کی حد کر دیں تو پھر کیا ہم اسلامی ملک میں رہنے کے قابل ہونگے،سینٹر مشتاق احمد نے کہا کہ یہ بلز 9صفحات،24 دفعات پر مشتمل ہے،اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کے اعتراض کی حمایت کرتا ہوں،اور اس پر بل لانا بھی ہے تو ویلفئیر آف مینارٹی کا نام دیا جائے،بل کی شو 2 قانون شرعیت سے متصادم ہے،وزیر برائے پارلیمانی امورعلی محمد خان نے کہا کہ وزارت مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بل کو مسترد کر دیا،انسانی حقوق وزارت اس بل کی خالق نہیں بلکہ انکی خدمات لینے لیے بھیجا،اس کمیٹی کے ٹی او آرز تھے ،اس پر غور کر موجودہ کمیٹی اپنا تعین کر سکتی،قانون سازی اپنی آئین کے مطابق کرنا ہے اور کسی غیر ملکی این جی سوز کے کہنے پر نہیں بنانا،کمیٹی ٹی او آر میں کہا گیا کہ کہ زبردستی مذہبی تبدیلی کو روکا کیا جائے،موجودہ کمیٹی صرف زبردستی مذہب تبدیلی کا واقعہ آتا ہے وہاں ایکشن لے،سینٹر مشتاق احمد نے کہا کہ 43 اعتراضات اسلامی نظریاتی کونسل نے لگائے ہیں. وزیر پارلیمانی امورعلی محمد خان نے کہا کہ کوئی بھی رکن اسمبلی یا سینیٹر پرائیویٹ بل لیکر ائے،وزارت مذہبی امور کو کمیٹی ڈائریکٹ کرے،تاکہ وہ بنا کر لائے،تاہم کمیٹی چیئرمین نے طویل بحث کے بعد مذہب کی جبری تبدیلی سے متعلق بل کو مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ زبردستی مذہب تبدیلی کو موجودہ قوانین کے مطابق روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
Comments
Post a Comment