چرچ پراپرٹی بچاؤ تحریک نے اقلیتی مشترکہ املاک آرڈیننس ایکٹ 2020ء ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

 

L to R: Jamil Khokher, Asif John, Bishop Jimmy Matthew, Zeeshan Ijaz, Adv. Raheem Khan and Adv. Saad Satti


اسلام آباد (سپیشل رپورٹر):  چرچ پراپرٹی بچاؤ تحریک نے اقلیتی مشترکہ املاک آرڈیننس ایکٹ 2020ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔ کورٹ میں دائر رٹ پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ حکومت نے اقلیتوں کی مشترکہ املاک کو بیچنے کیلئے چور دروازے کھولنے کیلئے یہ راستہ اختیار کیا ہے۔ قانونی مشیر و کواڈینیٹر ذیشان اعجاز کا کہنا ہے کہ وزارت مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی نے چند مفاد ٹولے کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے چور بازاری کو عام کرنا چاہتی ہے۔ ایڈوکیٹ ہائی کورٹ رحیما خان کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب پیش کردہ بل ٹرسٹ ایکٹ 1882ء وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کی جانب سے تحفظ اقلیتی مشترکہ املاک آرڈیننس،2001ء (آرڈیننس نمبر 5بابت 2002ء)  ایکٹ 2020ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیاہے۔ چرچ پراپرٹی بچاؤ تحریک کے قانونی مشیر ذیشان اعجاز کا کہنا ہے کہ وزارت مذہبی نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے ذریعے بل کو منظور کروا کرسینیٹ سے منظور کرواکر اقلیتوں کی مشترکہ املاک کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے قومی کمیشن برائے اقلیتوں کی سفارش پر فروخت، خریداری، انتقال، تحفہ میں دینے کی بابت این او سی جاری کرنے کا اختیار دے گی۔ پاکستان میں بسنے والے تمام غیورمسیحی اس بل کو پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں۔ صوبائی صدر بشپ جمی میتھیو نے کہا کہ حکومت اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے مسائل پیدا کررہی ہے۔ اس سے قبل پشاور ہائی کورٹ کے مرحوم چیف جسٹس وقاراحمد سیٹھ اکتوبر، 2017ء کو تفصیلی فیصلے میں این او سی کے ذریعے ٹرسٹ پراپرٹی کی خریدوفروخت اور منتقلی کو ٹرسٹ ایکٹ، 1882ء  کے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قراردے چکے ہیں۔ لہذا حکومت کو ایسے قوانین لانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ پٹیشنر جماعت اسلامی (اہل کتاب ونگ کے صدر) جمیل کھوکھر نے کہا کہ مسیحیوں کی مشترکہ استعمال میں لائی جانے والی املاک کو فروخت کرنا گھناؤنا جرم ہے اور جولوگ اس میں ملوث ہیں وہ مشنری اداروں کو بیچ کر مال بنا رہے ہیں اور مستقبل تاریک کرنے میں مصروف ہیں۔ اسلام آباد، راولپنڈی کے مسیحی چرچ پراپرٹی بچاؤ تحریک کے پلیٹ فارم سے ہر ایسے شخص کے خلاف کھڑے ہونگے جو ایسے گھناؤنے کاموں میں ملوث ہے۔ رٹ پٹیشن دائر کرتے ہوئے آصف جان نے کہا کہ اس سے قبل سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے دور حکومت میں کرنل (ریٹائرڈ) ایس کے ٹریسلر نے بھی بشپ آف لاہور اور رائیونڈ کی ایما پر ایسا ہی چور راستہ اختیار کیا اور مختلف شہروں میں مسیحیوں کی متعدد مشترکہ استعمال میں لائی جانے والی املاک کی فروخت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ چرچ پراپرٹی بچاؤ تحریک ایسے تمام اقدامات کے خلاف کھڑی ہے اور کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہے۔ قانونی ماہر رحیماہ خان اور سعد جاوید ستی نے کہا کہ وزارت مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی کی جانب سے پیش کردہ اس ایکٹ میں قانونی قدغن موجود ہے۔ دراصل این او سی جاری کرنا اقلیتوں کے مشترکہ استعمال میں لائی جانے والی املاک کو بیچنے یا تحفہ دینے کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ مشترکہ املاک میں چرچ، قبرستان، مشنری ادارے اور بعض خالی پراپرٹیز کی وضاحت نہیں کی گئی۔ لہذا اس کی وضاحت کیے بغیر کمیٹی نے بل منظور کردیا کہ کون سی پراپرٹی خریدو بیچی جاسکتی ہے اور ان املاک کی خریدوفروخت کس مقصد کے تحت کی جائے اور اس سے اقلیتوں کی املاک کا تحفظ نہیں بلکہ چور دروازہ ہے

Comments

  1. Who soever is challenging the ammendment is wasting their time they should actually challeng the clause 3 of protection for communal properties of ministry act 2001.

    In that act it is explicitly written that any Minoritiy property can be sold bought or transfeed by obtaining an NOC from federal government on recommendation of National commission for Minorities

    Already 6 NOC were issued by old NCM and new NCM headed by Mr Chela Ram Kewlani has issued one NOC.

    The ammendment is metei for bringing the recomy from federal bro provincial level nothing else.

    If they even stop the amendment they will not stop federal government bto issue NOC on NCM recommendations.

    Regards

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

کرسچین اسٹڈی سنٹر راولپنڈی میں کروڑوں روپے کی خردبرد اور جعلی اور بوگس دستاویزا ت جمع کروانے کا معاملہ، عدالت نے ڈی سی راولپنڈی کو انکوائری کرکے کاروائی کرنے کا حکم دے دیا

Bishop Azad Marshal elected new head of the Church of Pakistan