مسیحی برادری نے تحفظ اقلیتی متروکہ املاک آرڈیننس کو مسترد کردیا، بل کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان
اسلام آباد : وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی نے تحفظ اقلیتی مشترکہ املاک آرڈیننس،2001ء (آرڈیننس نمبر 5بابت 2002ء) ایکٹ 2020ء ایوان سے منظور کروا کر اقلیتوں کی مشترکہ استعمال میں لائی جانے والی املاک کو تحفظ دینے کی بجائے بیچنے کے دروازے کھول دیے ہیں۔ پاکستان کی مسیحی برادری نے اس بل کو مسترد کرتے ہوئے عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق وزارت مذہبی امور نے چیئرمین اسد محمود، قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی کی زیر صدارت بل منظور کیا جسے بعد ازاں قومی اسمبلی سے منظور کروایا گیا۔ ایکٹ ہذا کے تحت، اقلیتی برادریوں کے مشترکہ استعمال میں لائی جانے والی املاک کو تحفظ دیا گیا اور وزارت ہذا کو اقلیتوں کے قومی کمیشن کی سفارش پراقلیتوں کی مشترکہ املاک کی فروخت، خریداری، انتقال، تحفہ میں دینے کی بابت این او سی جاری کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
مسیحیوں نے ”چرچ پراپرٹی بچاؤ تحریک،پاکستان“ کے زیر اہتمام پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے اس ایکٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دراصل یہ بل اقلیتوں کی مشترکہ استعمال میں لائی جانے والی املاک کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے خریدوفروخت کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ چرچ پراپرٹیز بچاؤ تحریک کے صوبائی صدر بشپ جمی میتھیونے کہا کہ وفاقی حکومت نے تحفظ فراہم کرنے کی بجائے چور دروازہ کھولا ہے اور یہ بل ٹرسٹ ایکٹ 1882ء کے متصادم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ کے مرحوم چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے 5اکتوبر، 2017ء کو تفصیلی فیصلے میں این او سی کے ذریعے ٹرسٹ پراپرٹی کی خریدوفروخت اور منتقلی کو ٹرسٹ ایکٹ، 1882ء کے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قراردے چکی ہے۔ ایسے ہی گھناؤنے کاموں میں ملوث بشپ ہمفری پیٹر کئی مقدمات میں ملوث ہیں اور اس فیصلے کے خلاف دائراپیلیں تاحال سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت ہیں۔ لہذا وفاقی حکومت کو ایسے بل منظورکرنے سے پہلے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ پاکستان کے مسیحی ایسی قانون سازی کی سخت مذمت کرتے ہیں اور مسیحیوں کی املاک کے خلاف سازش ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی، اسلام آباد کے سٹی صدر ملک رحمت منظور نے کہا کہ ملک کا آئین اقلیتوں کے جان ومال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے تاہم شرپسند عناصر اپنے مذموم مقاصدحاصل کرنے کیلئے ایسے راستے اختیار کرتے ہیں لیکن ملک کے غیور مسیحی مشترکہ استعمال میں لائی جانے والی املاک کے تحفظ کیلئے ممکنہ راستہ اختیار کریں گے۔ چرچ پراپرٹی بچاؤ تحریک کے لیگل کواڈینیٹر ذیشان اعجاز نے کہا کہ اس سے قبل سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے دور حکومت میں کرنل (ریٹائرڈ) ایس کے ٹریسلر نے بھی بشپ آف لاہور اور رائیونڈ کی ایما پر ایسا ہی چور راستہ اختیار کیا اور مختلف شہروں میں مسیحیوں کی متعدد مشترکہ استعمال میں لائی جانے والی املاک کی فروخت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ چرچ پراپرٹی بچاؤ تحریک ایسے تمام اقدامات کے خلاف کھڑی ہے اور کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہے۔ جماعت اسلامی (اہل کتاب ونگ) کے اسلام آباد کے صدر جمیل کھوکھر نے کہا کہ مسیحیوں کی مشترکہ استعمال میں لائی جانے والی املاک کو فروخت کرنا گھناؤنا جرم ہے اور جولوگ اس میں ملوث ہیں وہ مشنری اداروں کو بیچ کر مال بنا رہے ہیں اور مستقبل تاریک کرنے میں مصروف ہیں۔ اسلام آباد، راولپنڈی کے مسیحی چرچ پراپرٹی بچاؤ تحریک کے پلیٹ فارم سے ہر ایسے شخص کے خلاف کھڑے ہونگے جو ایسے گھناؤنے کاموں میں ملوث ہے۔
قانونی ماہر ین رحیماہ خان اور سعد جاوید ستی نے کہا کہ وزارت مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی کی جانب سے پیش کردہ اس ایکٹ میں قانونی قدغن موجود ہے۔ دراصل این او سی جاری کرنا اقلیتوں کے مشترکہ استعمال میں لائی جانے والی املاک کو بیچنے یا تحفہ دینے کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ مشترکہ املاک میں چرچ، قبرستان، مشنری ادارے اور بعض خالی پراپرٹیز کی وضاحت نہیں کی گئی۔ لہذا اس کی وضاحت کیے بغیر کمیٹی نے بل منظور کردیا کہ کون سی پراپرٹی خریدو بیچی جاسکتی ہے اور ان املاک کی خریدوفروخت کس مقصد کے تحت کی جائے اور اس سے اقلیتوں کی املاک کا تحفظ نہیں بلکہ چور دروازہ ہے۔
Comments
Post a Comment