زیر تعمیر معاشرہ
شمیم محمود
![]() |
Bishop Ijaz Inayat |
ویسے توپُورے ملک کی حالت ”قابل دید“ ہے ، سرکاری ادارے ہوں یا غیر سرکاری، بڑے سرمایہ کار سے لیکر ریڑھی بان تک کھینچا تانی، سینہ زوری اور اقرباء پَروری جاری ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ یہاں بہتی گنگا میں سب ہاتھ دھو رہے ہیں اور ستم یہ ہے کہ اسے اپنا حق سمجھتے ہیں اور پھر پارسائی کے دعویدار بھی ہیں۔ تعلیمی معیار، تجربہ اورمیرٹ جائے بھاڑ میں، بس اپنے رشتہ دار، قریبی دوست احباب اور عزیز واقارب کو ترجیح دی جاتی ہے۔ وفاقی کابینہ یا صوبائی، اداروں میں اپنے خاندانوں کو نوازنا اور میرٹ کی دھجیاں اڑانا معمول کی بات ہے، اور پھر ظلم کی انتہا یہ ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اعلیٰ عدالتوں میں انصاف کا یہ عالم ہے کہ جیسے عہدے سے فارغ ہوئے”جناب“ کی کارستانیوں کے چرچے روز روشن کی طرح عیاں ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک چلے گا؟ کون تبدیلی لائے گا کیونکہ ”تبدیلی لانے“ کے دعویدار بھی ننگے ہوچکے ہیں۔ (نہ سو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی)۔ اب ایسے میں کہیں کوئی من چلا ”من پسند تعیناتیوں پر سوال کر لے تو کہا جاتا ہے کہ یہ جناب کا صوابدیدی اختیار ہے۔
یہ بگاڑ صرف سرکار کی حد تک محدود نہیں، نجی اداروں میں صوابدیدی اختیار سمجھا جاتا ہے اور چند خاندان اجارہ داری سمجھتے ہیں اور اگر کوئی سوال کر لے تو اسے مختلف طریقوں سے تنگ کیا جاتا ہے۔ جھوٹے رُعب ودبدبہ کو برقرار رکھنے کیلئے ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی دولت میں سے کچھ حصہ وکلاء اور دیگر ذرائع پر بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔
لیکن مرزا غالب کے بقول ”وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں“ کے مصداق آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو لاقانونیت اور دھونس دھاندلی کے منجھدھار میں اپنا کام کرتے رہتے ہیں اس امید پر کہ ”چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی“۔ 2004ء میں کراچی میں شادی کی ایک محفل کے دوران میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی۔ معلوم ہوا کہ موصوف بھی ایسی ہی صورتحال کا شکار ہوئے ہیں۔ ملاقات چونکہ سرسری تھی لہٰذا زیادہ بات چیت نہ ہوسکی۔ البتہ یہ معلوم ہوا کہ بشپ صاحب دھاندلی، سینہ زوری اور کھینچا تانی کا شکار ہوئے ہیں اور اب عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ دس سال بعد جب میرا ایک اور کام کے سلسلے میں پھر سے کراچی جانا ہوا، تو ذہن میں وہی بات کہیں کونے میں موجود تھی لہٰذا بشپ صاحب کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔ دروازے پر موجود سیکیورٹی گارڈ کو اپنا وزٹنگ کارڈ تھما کر بشپ صاحب سے ملاقات کی درخواست کی۔ جی ہاں، یہ پہلا موقع تھا جب مجھے چرچ آف پاکستان کراچی ڈائیوسس کے منتخب مگر دھاندلی اور دھونس کا شکارتقدس مآب جناب بشپ اعجاز عنایت صاحب سے باقاعدہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اس ملاقات کے دوران بشپ صاحب نے خاطر مدارت تو جو کی سو کی لیکن انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں چرچ آف پاکستان کے اندر لاقانونیت اور چوربازاری کا بازار سرگرم ہے اور یوں ایک منظّم گروہ اسے کنٹرول کررہا ہے اورمافیا کی شکل اختیار کرچکا ہے اور انہوں نے اس مافیا کے خلاف کھڑے ہونے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ معلوم نہیں بشپ اعجاز صاحب نے چرچ پراپرٹی بچاؤ تحریک کا آغاز کب اور کن عزائم کے تحت کیا لیکن کئی سالوں کی جدوجہد کے بعد بظاہر مذہبی لیکن
parasites
کے اصل گھنونے چہرے عوام کے سامنے ظاہر ہوگئے ہیں۔ ویسے تو کوئٹہ سے پشاور تک مذہب نے نام لیٹروں نے بہت سی داستانیں رقم کر رکھی ہیں اور اس میں فرقے کی کوئی تخصیص نہیں، رومن کاتھولک ہو یا چرچ آف پاکستان، پرسبٹیرن ہو یا پینٹی کاسٹل، ہر ایک فرقے میں گُھس بیٹھیے موجود ہیں جو خداکی خدمت کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ ایسا ہی ایک ادارہ راولپنڈی میں کرسچین اسٹڈی سنٹر کے نام قائم کیا گیا۔ بظاہر اچھے مقصد کیلئے یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا تاہم اگر کاغذات کا بغور جائزہ لیا جائے تو چوربازاری اور اقرباء پروری کا شائبہ نظر آتا ہے اور یہ بات اب عیاّں ہوچکی ہے۔ حاصل دستاویزات کے مطابق اس ادارے کو قائم کرنے کے اغراض ومقاصد اصل زبان میں درج ہیں۔
The Society shall be an autonomous, non-political, non-profit, ecumenical organization, established to promote a better understanding of and between faith communities, and to serve the Christian churches, individuals and institutions with similar concern, both in and outside Pakistan.۔
اور یہ چرچ آف پاکستان، رومن کاتھولک چرچ اور پرسبٹیرن چرچ کے اشتراک سے قائم کیا گیا۔ تاہم کئی سالوں کے بعد جب جانچ پڑتال ہوئی تو یہ بات سامنے آئی کہ اس ادارے کو چند لوگوں نے یرغمال بنا کر اس کے اصل مقصد سے ہٹ کر ذاتیات کے لیے استعمال کیا ہے اور چند خاندان نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ اور اس غرض سے انہی لوگوں نے ناجائز ذرائع کا بے دریغ استعمال کیا اور اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اس اداروں کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا، اور تو اورانہوں نے ایسے عہدیداروں کے جعلی دستخط کرکے مقاصد حاصل کیے گئے جو جہاں فانی سے ہی کوچ کرچکے ہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بنچ نے عدالت میں ”چرچ پراپرٹی بچاؤ تحریک“کی جانب سے دائر رٹ پٹیشن کو نمپٹاتے ہوئے متعلقہ ڈویژنل پولیس آفیسر (ڈی پی او) کو ہدایت کی ہے کہ اس ادارے میں تمام تر بے ضابطگیوں اور غلط دستاویزات کی جانچ پڑتال کرے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات کو دُور کرے۔ اس کیس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے وہ تو وقت بتائے گا لیکن سوچنے کہ بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اگرچہ ایسے کردار موجود ہیں لیکن ہم لوگ کب تک ان کی سیاہ کاریوں پر خاموش بیٹھے تماشہ دیکھتے رہیں گے۔کیا معاشرے میں ہم میں ہر ایک کا یہ فرض نہیں کہ وہ ایسے نوسربازوں کی نشاندہی کرے اور معاشرے کی اصلاح کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ کیا یہ وقت نہیں کہ ہم اپنے مستقبل کو بچانے کیلئے ایسے کرداروں کے خلاف آواز بلند کریں اور اپنا اپنا کردار اداکریں تاکہ نہ صرف ایسے کرداروں کا قلع قمع کرسکیں بلکہ آنے والی نسلوں کو محفوظ اور روشن مستقل دیں۔ اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم بھی ان کے جُرم میں شریک تصور کیے جاتے ہیں۔
Thank you and bless you my dear Shamim Mehmood.
ReplyDeleteWe need to speak to our generations.
Very nice writeup
ReplyDelete