نومنتخب مارڈریٹر بشپ آزاد مارشل کے نام



شمیم محمود

 بشپ صاحب کو مارڈریٹر منتخب ہونے پر دلی مبارکباد۔ بشپ آزاد مارشل صاحب سے میر ی پہلی ملاقات 2014ء میں لاہور انکی قیام گاہ پر ہوئی۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ بشپ صاحب نے میرا آرٹیکل روزنامہ ڈیلی ٹایمز میں پڑھا۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) نے 2013ء کے الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد مرکز اور پنجاب میں حکومت قائم کی تھی۔ ان دنوں ملک میں دہشتگردی اور مہنگائی کا شور شرابہ تھا اور ظاہر ہے ملک میں بسنے والی اقلیتیں بھی اس کا شکار تھیں تو ناچیز نے نومنتخب وزیراعظم کے لیے کچھ تجاویز رقم کی تھیں جن پر عمل کرکے اقلیتوں کی بہتری کیلئے کچھ کیا جا سکتا تھا اور ظاہر ہے کہ بین الاقوامی برادری میں بھی پاکستان کا بہتر تاثر جاتا۔  یہ الگ بات ہے کہ ایسا کچھ ہوا نہیں۔ بطور صحافی یا تجزیہ نگار ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ ملک وقوم کی بہتر ی کیلئے اپنی رائے کا اظہار کیا جائے، چونکہ عمل درآمد کرنے کیلئے نہ تو ہمارے وسائل ہوتے ہیں اور نہ طاقت۔ میرے آرٹیکل میں پیش کی جانے والی تجاویز بشپ صاحب کو بھلی محسوس ہوئی تو انہوں نے نہ صرف فون پر میری حوصلہ افزائی کی بلکہ ملنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ یوں پاسٹر شہزاد گل صاحب کی وساطت سے ہمیں بشپ صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ بات چیت کے دوران یہ محسوس ہوا کہ بشپ صاحب مسیحیوں کی حالت زار پردرد محسوس کرتے ہیں اور بہتر ی کیلئے کچھ کرنا چاہتے تھے اور میری تجاویز مناسب لگی۔ بہرحال سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ہماری تجاویز پر عمل کرنا تو درکنار یقینا میرا آرٹیکل پڑھا بھی نہیں ہوگا۔ آج بشپ آزاد مارشل صاحب، پاکستان کے سب سے بڑے چرچ کے سربراہ منتخب ہوئے ہیں اور میرے خیال میں ان کے پاس وسائل بھی ہیں اور عہدہ بھی لہذا سوچا کہ کچھ تجاویز ان کے گوش گزار کردی جائیں تاکہ سند رہے۔ بشپ صاحب، ممکن ہے کہ آپ پاکستا ن میں بسنے والے مسیحیوں کے مسائل سے واقف ہوں خصوصا وہ طبقہ جو مفوک الحال زندگی گزارنے پر مجبو رہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شہروں میں گندے نالوں کے کنارے، قصبوں میں کچی بستیوں اور گاؤں میں الگ تھلگ محلوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مسیحیوں کی کل آبادی کا تقریبا 80 فی صد سے زائد یہ طبقہ دو کمروں میں چھ سے آٹھ  افراد پر مشتمل ہے اور خاندان کا سربراہ اپنی بیوی کے ساتھ ملکر محنت مزدوری (صفائی کاکام) کرکے بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں مزدوری کا صلہ صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ بمشکل پیٹ پوجا ہوسکے اور بچوں کے لیے تعلیم وصحت کے مواقع میسر نہیں ہوتے یوں جیسے ہی بچے بڑے ہوتے ہیں (بلاتخصیص جنس) وہ بھی اسی ”کام“ میں جوت دیے جاتے ہیں۔ یوں ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے نسل در نسل خاکروب یا گھروں میں کام کرنے والی مائیاں پیدا کرکے ”خدمت“ کیلئے پیش کررہے ہیں۔ ویسے تو کئی دہائیوں سے اس طبقے کے ساتھ ظلم وزیادتی ہوتی رہی ہے لیکن سوشل میڈیا کے عام ہونے کی وجہ سے یہ کیسز منظر عام پر آرہے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید مسیحیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں مسیحیوں کے پاس بہت سے تعلیمی ادارے اور ہسپتال موجود تھے جو بلا تفریق رنگ ونسل اور مذہب عوام کی خدمت میں مشغول تھے۔ قومی تحویل کے بعد جو کچھ بچ گیا ہے اور گزشتہ عرصے کے دوران ہونے والی بے ضابطگیوں اور زمینوں کی فروخت پر بحث کیے بغیر میرا یہ ماننا ہے کہ اب بھی اگر سنجیدگی کے ساتھ دستیاب وسائل کو بہتر طور پر استعمال کیا جائے تو بہتری ممکن ہے۔ سردست عرض ہے کہ چرچز کے زیر انتظام موجود تعلیمی اور صحت کے اداروں میں مسیحی بچوں کی تعلیم اور تربیت کیلئے خصوصی توجہ دی جائے تو کمزور طبقے کے تعلیم حاصل کرنے اور بہتر روزگار کے مواقع پید ا کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر چرچز کے سربراہان کے ساتھ ملکر ایک ایسا لائحہ عمل مرتب کیا جائے جس کا مقصد آئندہ نسل کی بہتری اور راہنمائی ہو۔ اگر ممکن ہوتو فرقے کی تفریق سے بالاتر ہوکر ایک نیا ادارہ تشکیل دیا جائے جس میں تمام شعبوں سے وابستہ تجربہ کار باصلاحیت افراد شامل کیا جائے جس کا مقصد مسیحیوں کی معاشی، سماجی اور معاشرتی بہتری کیلئے تجاویز مرتب کرنا ہو۔ ٹیکنیکل ٹریننگ کے پرانے اداروں کی تشکیل نو کے ساتھ ساتھ نئے ادارے قائم کیے جائے اور نچلی سطح پر نوجوانوں کی تربیت اور راہنمائی کیلئے تسلسل کے ساتھ ورکشاپس اور ٹریننگ سیشن کا انعقاد کیا جائے۔ بے ترتیب اور بے ہنگم چھوٹے چرچز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر، مستند اور تعلیم یافتہ پادریوں کو تعینات کیا جائے اور انہیں اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنے چرچ میں مذہبی، سماجی اور معاشی ترقی پر دھیان دیں اور اس بات کو یقینی بنایا جائے۔ کیونکہ چرواہے کا عصاء ، بھیڑوں کی تربیت اور بھیڑیوں سے محفوظ رکھنے کیلءے دیا جاتا ہے 

بشپ صاحب!  یوسف یوحنا، رومینہ خورشید عالم، معروف مسیحی ادارکارہ سنیتا مارشل ودیگر اداکاراؤں سمیت سابق بشپ الیگزینڈر جان ملک کی بیٹی اور دیگر نامور مسیحیوں کے مسلمانوں کے ساتھ شادیوں اور تبدیلی مذہب سے نوجوان مسیحیوں میں غلط تاثر پیدا ہوا ہے، لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے سدباب کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ ملک میں سیاسی جماعتوں کے اقلیتی ونگز کی وجہ سے مذہبی اقلیتوں میں تقسیم پیدا ہوچکی ہے لہذا ملکی قیادت کے ساتھ مشاورت کے ساتھ ایساسیاسی نظام متعارف کروایا جائے جس سے مذہبی اقلیتیں تقسیم در تقسیم کی بجائے متحد ہوکر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

کرسچین اسٹڈی سنٹر راولپنڈی میں کروڑوں روپے کی خردبرد اور جعلی اور بوگس دستاویزا ت جمع کروانے کا معاملہ، عدالت نے ڈی سی راولپنڈی کو انکوائری کرکے کاروائی کرنے کا حکم دے دیا

چرچ پراپرٹی بچاؤ تحریک نے اقلیتی مشترکہ املاک آرڈیننس ایکٹ 2020ء ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

Bishop Azad Marshal elected new head of the Church of Pakistan