بلاعنوان
![]() |
Shamim Mehmood |
کہتے ہیں کہ ایران کے جنگلات میں موسم سرما کے دوران برف باری کی وجہ سے جب بھیڑیوں کو خوراک کی قلت ہوتی ہے تو بھیڑے ایک دائرے میں بیٹھ جاتے ہیں اورایک دوسرے کو گُھورنا شروع کردیتے ہیں۔ جیسے ہی اِن میں سے کوئی ایک بھیڑیا بھوک سے نڈھّال ہوکر گرتا ہے تو گروہ میں موجود باقی تمام بھیڑے اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اسے کھا جاتے ہیں۔فارسی میں اس عمل کو ”گرگ آشتی“ کہا جاتا ہے۔ اس عمل کا اگر بخور جائزہ لیں تو یہ رجحان بھیڑیوں کے ساتھ ساتھ کافی حد تک انسانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی بھیڑیوں کی طرح ہے جو کمزور نظرآتا ہے اس پر اپنا رُعب و دبدبہ بٹھانے کیلئے یا اسے نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جو جتنا حالات کا ستایا ہوتا ہے اس پر مزید بوجھ بڑھایا جاتا ہے۔ ہم کمزور کا سہارا بننے کی بجائے اسے مزید تنگ کرتے ہیں اور اس کی زندگی دشوار بنا دیتے ہیں۔ یہ عمل ریاستی اداروں میں بھی نظر آتا ہے۔ ایک دوسرے پر برتری ثابت کرنے کیلئے جنگ جاری ہے۔ ہمارے ہاں حب الوطنی ثابت کرنے کا کوئی پیمانہ نہیں۔ بلوچ، پختون، سندھی یا قوم پرست ہونا تو ویسے ہی جرم تصّور کیا جاتا ہے لیکن اگر آپ سنّی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اورپنجاب کا ڈومیسائل ہے تو بھی آپ پر غداری کی ایف آئی آر درج ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف اگر آپ کا تعلق کسی مذہبی اقلیت سے ہے تو آپ کو بڑی آسانی سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اس واقعے پر اپنا نقطہ نظر پیش کروں، پہلے اس واقعے کی تفصیل پیش کرتا ہوں اور پھر اپنا موقف۔ میں گزشتہ کئی سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہوں، مارچ 2020ء سے بیروزگارہوں اور کسمپرسی کی زندگی بسر کررہا ہوں۔ اس سے قبل جولائی 2019ء میں وزیر اعظم عمران خان کے دورہِ امریکہ کے دوران میڈیا ٹیم کے رکن کی حیثیت سے واشنگٹن گیا، اسی سال ستمبر میں بدھا پشٹ، ہنگر ی میں یورپی یونین کے مسیحی صحافیوں کی تین روزہ کانفرنس میں پاکستان سے بطور صحافی شامل ہوا۔ فروری 2020ء میں آذربائیجان میں ہونے والے جنرل الیکشن کوریج کیلئے پاکستان سے جانے والے صحافتی وفد کا حصہ رہا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے مختلف اداروں اور بین الاقوامی کانفرنسز میں شرکت کرچکا ہوں۔ یہ 18مارچ،2021ء کا دن تھا، جب دوپہر میں نے کوہسار مارکیٹ، اسلام آباد میں واقع ایک ریسٹورنٹ میں ایک سفارتکار کے ساتھ ملاقات کی، اس ملاقات میں ایک جاننے والا شخص بھی موجود تھا۔ تقریباً تیس چالیس منٹ کی گپ شپ کے بعد ہم وہاں سے نکلے۔ مجھے دفتر خارجہ کارڈ بنوانے کیلئے اپنے کاغذات جمع کروانے تھے لہٰذا ہم وہاں سے وزارت خارجہ گئے اور میں نے باہر اپنے کاغذات جمع کروائے اور اپنے اس ساتھی کے ساتھ بلیو ایریا پہنچ گیا . بعد ازاں سیکٹر جی سیون میں روزنامہ جناح کے ایڈیٹر شمشاد مانگٹ، چیف رپورٹرظفر ملک اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کرکھانا کھایا اور چند گھنٹے گپ شپ کرتے رہے۔ اسی دوران ایک اور جاننے والے کا فون آیا اور ملنے کی خواہش کی۔ کچھ دیر بعد وہ شخص بھی وہیں آگیا اور ہم نے معمول کی گپ شپ کی۔ سہہ پہر جب واپسی گھر کیلئے نکلا تو پہلے والے شخص کا فون آیا جو سفارتکار کے ساتھ ملاقات کے دوران موجود تھا اور اس نے پھر سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں نے اگلے دن ملنے کا کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی لیکن اس کے اصرار پر گھر جانے کی بجائے اس کی جانب چل نکلا۔ ابھی میں موصوف کے بتائے ہوئے مقام پر پہنچا ہی تھا کہ اردگرد سے ماسک پہنے چند افراد نے مجھے گھیرے میں لے لیا اور مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے جانا چاہا، میرے مزاحمت کرنے پر انہوں نے مجھے زبردستی گاڑی میں بٹھایا اور میرے چہرے پر کالا نقاب چڑھا دیا اور میرا موبائل بھی قبضہ میں لے لیا۔ اب مجھے معاملے کی سمجھ آرہی تھی کہ شاید یہ کسی خفیہ ادارے کے لوگ ہیں اور مجھے اغوا ء کرکے لے جارہے ہیں لہذا میں نے انہیں وجہ پوچھی اور چونکہ چہرے پر نقاب چڑھانے کی وجہ سے میرا دم گھٹنے لگا تھا تو میں نے انہیں بتایا کہ میں ایک صحافی ہوں اور پولن الرجی کی وجہ سے میرا سانس کا شدید مسئلہ ہے لہٰذا چہرے سے نقاب اتار دیں لیکن انہوں نے نقاب تو نہ اتارا البتہ منہ سے تھوڑا ہٹا دیا تاکہ سانس لینے میں رکاوٹ نہ ہو۔تقریباً پندرہ سے بیس منٹ تک چلنے کے بعد گاڑی ایک جگہ جاکر رُکی اور انہوں نے مجھے گاڑی سے نکالا اور ایک کمرے میں لے جاکر میرے چہرے سے کالا نقاب اتار دیا۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جہاں ایک میز اور چند کرسیاں رکھی گئی تھیں اور سامنے ایک کیمرہ لگا ہوا تھا۔ کمرے میں ایک کونے پر لکڑی کے ڈنڈے او ر پلاسٹک کے چند پائپ پڑے تھے۔ مجھے ایک کرسی پر بیٹھنے کو کہا گیا اور ان میں سے ایک شخص میرے سامنے بیٹھ گیا اور سوالات پوچھنے لگا، مثلاً کہ میں کون ہوں، کیا کرتا ہوں، وہ غیر ملکی کون تھا، میرے ساتھ والا شخص کون تھا۔ سیکٹر جی سیون میں کس سے اور کیوں ملا، اور میں کس ایجنڈے پر کام کرتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ میں نے انہیں صاف صاف بتایا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک اور شخص آیا اور سامنے والی کرسی پر بیٹھ کر وہی سوالات دھرانے لگا، میں نے وہی جوابات اسے بھی دیے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ انہیں میرے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں لیکن وہ میرے جوابات سے بھی مطمئن نہیں تھے اور انہیں جھوٹ تصور کرتے ہوئے سچ اگلوانے کیلئے تشدد بھی کرتے رہے۔ میں نے انہیں واضع بتایا کہ میں ایک صحافی ہوں اور میڈیا کے مختلف اداروں کے ساتھ کام کرتا ہوں اور سفارتکاروں کے ساتھ ملاقات ایک معمول ہے، البتہ کسی غیر ملکی ایجنڈے کا حصہ نہیں ہوں۔ لیکن وہ لوگ یقین کرنے کو تیار نہیں تھے تو میں نے انہیں کہا کہ آپ میرے گھر والوں کو اطلاع کردیں چونکہ میرا فون کافی دیر سے آپ نے بند کیا ہے لہٰذا وہ لوگ پریشان ہونگے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ آپ جتنی جلدی سچ بتادیں گے آپ کی جان جلدی چھوٹ جائے گی۔ جب کہ میرا جواب وہی تھا جو میں پہلے بتاچکا تھا۔ تقریباً ساڑھے تین، چار گھنٹے کے بعد انہوں نے پھر مجھے کرسی پر بیٹھنے کی اجازت دے دی مگر پھر وہی سوالات دھرانے شروع کردیے۔ اس سارے وقت کے دوران ان لوگوں میں سے کچھ لوگ باری باری کمرے میں آتے جاتے رہے اور وہی سوالات پوچھتے رہے۔ میں نے بارہا کہا کہ میں آپ کے تمام سوالات کے جوابات سچ سچ دے چکا ہوں اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ چند گھنٹوں کے بعد انہوں نے مجھے پانی دیا اور کہا کہ اب بھی وقت ہے سچ سچ بتادو تو تمہاری جان چھوٹ جائے گی۔ لیکن میرا جواب پھر بھی وہی تھا۔ حقیت یہی ہے کہ اتنے سال صحافت کے دوران غیر ملکی سفارتکاروں کے ساتھ ملنا ملانا ایک معمول رہا لیکن اس ملک میں رہتے ہوں حالات اور رجحانات کو مدِنظر رکھتے ہوئے چند حفاظتی اقدامات کو ملحوظ خاطر رکھا۔ کیونکہ مسیحی ہونے کے ناطے ایک آسان حدف ہوں لہذابھارتی سفارت کاروں کے ساتھ ملنے سے گریز اور ان کے ایونٹس پر جانے سے احتیاط کرتا رہا البتہ دیگر ممالک کے سفارتکاروں سے ملنا اور ان کے ایونٹس میں شامل ہونا ایک معمول رہا۔ لیکن کسی سے ڈیکٹیشن نہیں لی اور نہ ہی کسی ایسے کام کا حصہ رہا جو ملکی سلامتی کے خلاف ہو۔ خیر چند گھنٹوں کے بعد انہوں نے میرے چہرے پر پھر سے کالا نقاب چڑھایا اور باہر نکال کرگاڑی میں بٹھایا۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ فی الحال تو آپ کو چھوڑ رہے ہیں کل آپ کو پھر فون کرینگے اور آپ نے ہمارے ساتھ تعاون کرنا ہے۔ میں نے خدا کا شکر کیا. جب میرے چہرے سے نقاب اتارا گیا تو گاڑی بلیوایریا انڈر پاس کے نیچے سے گزررہی تھی۔ میرا فون مجھے واپس کردیا گیا اور کہا کہ گھر والوں کو مطلع کر دو کہ ”دوستوں“ کے ساتھ تھا۔ اس دوران میرا فون ان کے پاس رہا اور واٹس ایپ کھول کر مختلف لوگوں کے بارے میں دریافت کرتے رہے۔ عین ممکن ہے کہ انہوں نے فون کا سارا ڈیٹا کاپی کرلیا ہو اور واٹس ایپ پر تمام گفتگو سمیت تمام فون بھی ۔ کیونکہ جب میں نے فون چیک کیا تو مختلف نئی ایپ ڈون لوڈ کی گئی تھی اور فون کو کمپیوٹر کے ساتھ connect کیا گیا تھا۔ دوسرے دن میں نے متعلقہ پولیس اسٹیشن میں واقعے کی تفصیل لکھ کر کاروائی کی درخواست دائر کی۔ یہ بات تو واضع ہے کہ یہ لوگ کسی خفیہ ادارے سے تعلق رکھتے تھے کیونکہ میری کسی کے ساتھ کوئی دشمنی یا تنازعہ نہیں۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وجہ معلوم ہو جاتی، دوسری بات اگر کسی کو میرے ساتھ کوئی خار ہے تو یا تو وہ اتنا کم ظرف اور کمزور ہے کہ سامنے آکر وار کرنے سے گھبراتا ہے اور بھلا سرکاری ادارے کسی شخص کی ذات کیلئے اپنے وسائل کیوں استعمال کرینگے۔ تو بھی یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اگر مجھے شک کی بنیاد پر اغواء کیا گیا تو انہوں نے کسی خاص کام کی نشاندہی کیوں نہیں کی۔ اور پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ بھلا ایک سال سے بے روزگار بیٹھے شخص کے خلاف کاروائی کرنے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ بطور سفارتی رپورٹر کام کرتے ہوئے کئی سال ہوگئے ہیں اور مختلف میڈیا ہاؤسز کے ساتھ کام کرتے ہوئے مختلف وزارتوں اور پارلیمنٹ کی کوریج کی ذمہ داریاں بھی سرانجام دیں۔ صحافتی دنیامیں جس صحافی کے اداروں میں یا اپنی بیٹ میں اچھے تعلقات ہوتے ہیں اسے خبر ملتی ہے یا اسے اچھا رپورٹر تصور کیا جاتا ہے، مطلب بطور رپورٹر یہ مثبت پہلو گنا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ہمارے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے یا ان کا بس یہی کام رہ گیا ہے کہ بغیر تحقیق کیے کسی بے ضررانسان کو محض شک کی بنیاد پر اغواء کرلو اور سرکاری اختیارات اور وسائل کو بے جاء اور بے مقصد ضائع کرو۔ یا پھر کمزور جان کر غیر انسانی سلوک کرنا اور اپنی دھاک بٹھانا مقصد ہے۔ اور پھر ہمارا معاشرہ تواتنا بے حس ہوچکا ہے کہ میرے اردگرد بعض لوگوں نے من گھڑت اور بے بنیاد افوائیں پھیلانا شروع کردیں اور بعض قریبی لوگوں نے مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کی۔ البتہ کچھ لوگ اس واقعے کے دوران میرے ساتھ کھڑے رہے۔ چیف رپورٹر ملک ظفر، ساتھی رپورٹر ز میں سے فرحت فاطمہ، اعجاز خان، امتیاز چغتائی، محفوظ بھٹی اور پیپلز پارٹی سٹی صدر اسلام آباد ملک رحمت منظور، جماعت اسلامی اہل کتاب ونگ کے سٹی صدر جمیل کھوکھر، مسلم لیگ ن کے اقلیتی راہنما آصف جان اور بشارت کھوکھر سمیت دیگر ساتھیوں کا مشکور ہوں جو میرے ساتھ کھڑے رہے۔ راولپنڈی، اسلام آباد یونین آف جرنلسٹ (ورکرز) نے مذمتی بیان جاری کیا جبکہ سابق صدر نیشنل پریس کلب شکیل قرار نے فون کرکے خیرت دریافت اور ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ اس کے علاوہ کچھ رشتہ داروں اور دوستوں نے احوال دریافت کیا۔ ہوسکتا ہے کہ کسی کے لیے یہ معمولی واقعہ ہو مگر اس دن سے جس ذہنی کوفت کا میں اور میری فیملی شکار ہے ا س کا اندازہ صرف وہی کرسکتا ہے جن پر خود ایسا واقعہ ہوا ہو اور جو لوگ اسے خودساختہ کاروائی قرار دے رہے ہیں وہ خود ایسے کام کرتے ہونگے کیونکہ میں چاہو بھی تو من گھڑت قصے نہیں لکھ سکتا۔ یہ بات طے ہے کہ اپنی تمام تر توانائیاں ملک وقوم کیلئے صرف کی ہیں اور ملکی سلامتی سے بڑھ کر کسی چیز کو اہمیت نہیں دی۔ باقی کسی کی زبان یا سوچ کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ معاملہ ابھی حل طلب ہے ممکن ہے کسی اور طریقے سے راستے سے ہٹانے کی سازش تیار ہو دہی ہو. ایسی صورت میں سرکار ذمہ دار ہے.
Comments
Post a Comment