کھلاڑی سے اناڑی


شمیم محمود



ایک سرکاری افسر بے خودی میں کہا کرتے تھے کہ تم صحافی لوگ ایویں بیوروکریٹس کے پیچھے لگے رہتے ہیں سرکاری ملازم کتنا مال بناسکتا ہے، بڑی ہمت کرے گا تو دو , چار کروڑ اِدھر اُدھر کر لے گا، اصل مال تو سیاستدان بناتے ہیں اور آج تک کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ میرا ماننا ہے کہ سیاستدانوں کو مال بنانے کے طریقے بھی سرکاری بابو ہی بتاتے ہیں اور پھر سرکاری افسران کے دو، دو چارکروڑ بھی جمع کریں تو بات کہاں تک جاتی ہے۔ کپتان کی قیادت میں پی ٹی آئی نے کرپشن کے خاتمے، انصاف اور نئے پاکستان کا نعرہ لگایا، دردِ دل رکھنے والے اور روایتی سیاست سے بیزار پاکستانیوں نے ان کا ساتھ دیا۔ پھر 2018ء کے انتخابات میں کچھ سیٹیں پی ٹی آئی نے حاصل کر لیں کچھ ”یار“ لوگوں کی مدد سے مل گئیں اور یوں اتحادیوں کے ساتھ ملکر حکومت بنالی۔ لیکن پی ٹی آئی کی حکومت نے عام آدمی کی فلاح کیلئے اب تک کچھ نہیں کیا۔ ہاں جھوٹ , فریب اور گالی گلوچ کی سیاست کو ضرور فروغ دیا ہے۔معلوم نہیں کپتان کو کس نے مشورہ دیا تھا کہ جھوٹ اتنا بولو کہ سچ لگنے لگے اور جو خلاف بات کرے اسے گالی گلوچ دیتے رہو۔ دو ڈھائی سال کے بعد کپتان نے یہ بات تو تسلیم کر لی کہ ٹیم اناڑی ہے۔ جی بالکل صحیح کہا کیونکہ وہ لوگ جو سیاست میں نئے تھے انہیں معلوم نہیں تھا کہ مال کیسے بنانا ہے البتہ اتحادی اور پرانے کھلاڑی جو ساتھ ملائے تھے, روز اول سے مال بنانے میں مصروف رہے۔ بھلا کپتان کے کھلاڑی اس میدان میں کیوں پیچھے رہتے انہوں نے بھی اس کام کے لیے بیوروکریسی کی خدمات لینا شرو ع کردیں۔ انہی میں سے ایک کھلاڑی جو اپنے وزن سے بڑی بڑی بھڑکیں مارتا رہا ہے اس کی وزارت کا ایک سکینڈل زبان زدوعام ہے۔ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ دوسروں پر چیخنے چلانے والے اس نوجوان کھلاڑی نے کیسی مہارت کے ساتھ اپنے قد سے بڑا ہاتھ مارنے کی منصوبہ بندی کی۔ پوسٹل سروسز پاکستان ہی نہیں دنیا میں ڈاک کی ترسیل کا قدیم ادارہ ہے، ایک بین الاقوامی معاہدے کے تحت پوسٹل سروس کی سروسز جنگ کے دنوں میں بھی نہیں روکی جا سکتی۔ پاکستان پوسٹ کے  12000 دفاتر کونے کونے میں کام کر رہے ہیں جو ملک میں کام کرنے والے تمام بنکوں کی برانچز سے زائد تعداد ہے لیکن پرانے طریقوں سے کام کرنے کی وجہ سے بے کار ہوتے جا رہے تھے۔ چونکہ اس ادارے کا سالانہ حجم 1.93 ٹریلین روپے تک ہے۔ لہذا اس کی سروسز کو جدید تقاضوں پر لانے کیلئے منصوبہ بندی تیار کی گئی۔ اس سلسلے میں دوست ملک کوریا نے پاکستان پوسٹل سروسز کو جدید تقاضوں پر لانے کیلئے کام کرتے ہوئے اس ادارے کو Exim Bank - Korea کے ذریعے سے 23 ملین ڈالر کا نہایت آسان 1 فیصد سے بھی کم شرح سُود پر قرض چالیس سال کی مدت میں واپس کرنے کی پیشکش کی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس منصوبے کیلئے اکنامک افیئر ڈویژن کی معاونت حاصل تھی مگر ٹھکرا دی گئی۔ اس کے علاوہ ورلڈ بنک کے مختلف پروگرامز کے تحت بھی مدد حاصل کرنے کے آپشن موجود تھے جنہیں  بروئے کار لانے کی بجائے نوجوان کھلاڑی نے اپنی الگ سے منصوبہ بندی تیار کی ہوئی تھی۔ اس سلسلے میں وزیر موصوف نے سینارٹی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جونیئر ترین افسر اعجاز منہاس کو ارشد علی خان، عرفان انور بلوچ، زینت حسین بنگش اور خالدہ گلنار پر ترجیح دیکر گریڈ 22 میں ترقی دلوا کر ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل فنانشل سروسز  مقرر کروایا۔ اعجاز منہاس ”صاب“ نے بڑی چالاکی کے ساتھ ملک میں موجُود 12 ہزار پوسٹ آفسز کو    Digitialize  کرنے کیلئے نجی مالیاتی ادارے حبیب بنک لمیٹیڈ کے ساتھ گٹھ  جوڑ کیا بلکہ معاہدہ ہونے سے ایک ماہ قبل ہی حبیب بنک نے اسٹامپ پیپرز وغیرہ تیار کروا کر اٹارنی سے تصدیق بھی کروا لیے۔ اعجاز منہاس ایڈیشنل ڈی جی نے حبیب بینک کو فائدہ پہنچانے کے لئے معاہدے کی دو شقیں بھی وزارت قانون سے vetting کے بعد تبدیل کر دیں- بعد ازاں جب یہ راز ادارے میں موجود دیگر افسران پر افشاں ہوا تو موصوف کے خلاف انکوائیری کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں اعجاز منہاس کو تمام تبدیلیوں کا مرتکب قرار دیا گیا۔ ستم یہ ہے کہ تمام تر کاروائی کے باوجود مرکزی کردار کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے اس کارستانی پر سوال اٹھانے والے افسر ڈی جی پاکستان پوسٹ رانا اخلاق کو نشانہ بنادیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس گیم میں تقریباً سات ارب روپے کی بندر بانٹ تھی جس کا بڑا حصہ وزیر موصوف کی جیب میں جانے کی امید تھی اس کے علاوہ سیکرٹری ظفر حسن، ایڈیشنل ڈی جی اعجاز منہاس اور دیگر افراد کو بھی حبیب بنک کے ساتھ معاہدے کی صورت میں حصہ ملے گا۔ تاھم  صورتحال یہ ہے کہ ٹرانسپریسی انٹرنیشنل نے بھی اس معاہدے پر سوال کیا ہے اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بھی اڈیٹرجنرل آف پاکستان کو اس معاملے میں تحقیقات کا حکم دیا ہے، اس کے علاوہ ایف آئی اے اور نیب بھی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ایک شریف شہری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو معاملے کی جانچ پڑتال کا حُکم دیا اور اب اس کیس کی اپیل سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر کر دی گئی ھے۔ صاف ، شفافیت کی دعویدار پی ٹی آئی کا یہ ایک کارنامہ ہے اس کے علاوہ دیگر معاملات میں بھی خوردبرد کے الزامات موجود ہیں جنہیں فی الحال دبایا جارہا ہے۔ یہ بات تو واضع ہے کہ حکمران جو بھی ہوتا ہے شفافیت اور عوام کی فلاح کے نعرے اقتدار میں آنے سے پہلے تک ہوتے ہیں مگر جیسے ہی کرسی پر براجماں ہوتے ہیں، ان کے دانت نکل آتے ہیں اور سونگھتے پھرتے ہیں کہ کہاں سے مال کھائیں۔ سوچیں یہ اناڑی ہیں لیکن حکومت کے ساتھ جڑے کھلاڑی جو کام دکھا رہے ہیں وہ کیا گُل کھلائیں گے۔

 


Comments

Popular posts from this blog

کرسچین اسٹڈی سنٹر راولپنڈی میں کروڑوں روپے کی خردبرد اور جعلی اور بوگس دستاویزا ت جمع کروانے کا معاملہ، عدالت نے ڈی سی راولپنڈی کو انکوائری کرکے کاروائی کرنے کا حکم دے دیا

چرچ پراپرٹی بچاؤ تحریک نے اقلیتی مشترکہ املاک آرڈیننس ایکٹ 2020ء ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

Bishop Azad Marshal elected new head of the Church of Pakistan