پے ٹیکس بلڈ پاکستان
شمیم محمود
گزشتہ دو، ڈھائی دہائیوں سے ڈیجیٹل میڈیا کی وجہ سے بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی شکل یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔ ”بریکنگ نیوز“ اور ”سب سے پہلے“ خبر بریک کرنا کا معیار تبدیل ہوگیا ہے۔ صحافیوں کے کام کرنے کے انداز اور دیگر ذرائع تبدیل ہوگئے ہیں۔ یوٹیوب پر نت نئے پروگرامز کے ذریعے پیسے کمانے کی دوڑ تیز ہوگئی ہے۔ حالات حاضرہ اور سنجید ہ موضوعات کی نسبت چٹ پٹی خبروں اور طنز ومزاح کو ترجیح دی جاتی ہے۔لیکن گہماگہمی کے اس دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو سنجیدہ کام کرکے اپنا کردار اد ا کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری عمر کے لوگ جو بچپن میں صرف پی ٹی وی سے ہی واقف تھے اور سکول جانے سے پہلے چاچا تارڑ اور قرات العین کی گفتگو سنا کرتے اور چند منٹس کے کارٹون کے منتظر ہوتے تھے، ٹھیک اس دور میں پاکستان ٹیلی ویژن پر اس وقت کے معروف ڈراموں اندھیرہ اجالا، ان کہی، دھوپ کنارے، تنہائیاں وغیرہ نشر ہوا کرتے تھے۔ غالباً یہ وہ دور تھا جب ڈرامہ سریل کی ہفتہ وار قسط نشر کی جاتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈراموں کی نشریات کے دوران بازار خالی ہو جایا کرتے تھے۔ اس دور میں صرف ”پی ٹی وی“ ہوا کرتا تھا اور بعض علاقوں میں جہاں جہاں بھارتی ٹی وی کی نشریات نظر آتی وہ لوگ بھارتی فلمیں اور ”رنگولی“ دیکھنے کیلئے ٹیلی ویژن کے اینٹینا گھمایا کرتے تھے۔اسی دور میں پی ٹی وی پراشتہارات کا بھی ایسا سیشن چلتا تھا کہ بعض اوقات لوگ بھول جاتے تھے کہ ڈرامہ بھی دیکھ رہے تھے۔ ان اشتہارات میں بعض آج بھی یاد ہیں، ان میں سے ڈنٹونک کا اشتہار تقریبا سب کو یاد ہوگی، جس میں اس وقت کی معروف ادارکارہ نیلما حسن نے کام کیا تھا۔ یا پھر ”بھول نہ جانا پھر پاپا، نورس لے کر گھر آنا“ ۔ ”کیونکہ ہے بالوں کا معاملہ“۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان اشتہارات کے ذریعے بہت سے اداکاروں کو شوبز میں متعارف کرایا گیا.
ان دنوں ہمیں ڈراموں سے زیادہ اشتہارات میں دلچسپی ہوتی تھی۔پہلے سکو ل اور پھر کالج تک صبح کی نشریات میں مستنصر حسین تارڑ صاحب کی نصیحتیں سنتے اور ساتھ ساتھ ناشتے کا دور بھی جاری رہتا۔کبھی کبھی انٹی قرات العین صبح کی نشریات میں چچا تارڑ کا ہاتھ بٹانے آتی تھیں۔ بچپن میں ہمیں ڈراموں کی سمجھ کم ہی آتی تھی لہذا اشتہارات شوق سے دیکھتے تھے، البتہ بعض ڈرامے بعد میں دیکھے مگر اشتہارات اب بھی یاد ہیں۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیں کہ صحافت میں آنے کے بعد مشہور اشتہارات کے تخلیق کار سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوگیا۔ جی ہاں، جن چند اشتہارات کی لائنوں کا میں نے تذکرہ کیا ہے۔ یہ خالد پرویز صاحب کی تخلیق ہیں۔ ان کے ساتھ میری پہلی ملاقات بینش کے ذریعے ہوئی۔ بینش معلوم نہیں آج کل کہاں ہے، آخری اطلاعات تک امریکہ میں منتقل ہوچکی تھیں۔ ان دنوں ہم نے خالد صاحب کے ماہنامہ ”پاک۔ یورو ورلڈ“ میں لکھنے کی حامی بھرلی۔ یہ کام تو تھوڑا عرصہ چلا مگر خالد صاحب کے ساتھ ایک تعلق قائم ہوگیا۔ میرے خیال میں تخلیق کار بہت کم گو ہوتے ہیں اور میں نے اتنے سالوں کے دوران خالد صاحب کو بولتے کم اور سوچتے زیادہ دیکھا ہے۔ پچھلے چند سالوں سے ایک نیا جریدہ نکالنے پر کام کررہے تھے۔ ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں جب ہر شخص کے سر پر یہ جنون سوار ہے کہ انوکھی اور نرالی ویڈیو بنا کر یوٹیوب پر اپنے ویورز کی تعداد میں اضافہ کرکے کمائی کرے۔ ایسے میں خالد پرویز صاحب نے ماہنامہ شائع کرنے کی ٹھانی۔ اب کی بارموصوف نے ملک سنوانے کا شوق چرایا ہے اور عوام کو ٹیکس اداکرنے کا درس دینے کا بیڑا اٹھایا ”پے ٹیکس“ بلڈ پاکستان کے نام سے ایک ماہنامہ شروع کردیا۔مجھے اب تک یہ بات ہضم نہیں ہورہی کہ شوبز کی چکا چوند روشنیوں اور "پریوں" کی دنیا میں رہنے والا شخص سنجیدہ موضوع پر کیوں کام کررہا ہے۔ میرے جیسے دو جمع دو چار والے لوگ ایسے کاموں سے تھوڑے ناواقف ہی ہوتے ہیں۔البتہ صحافت کے شعبے سے منسلک ہونے کی وجہ سے پنجہ آزمائی کرنا پڑتی ہے۔ خیر پہلے شمارے میں تو صدرِ پاکستان سے لیکر ایف، بی، آر اور چیمبر آف کامرس کے صدور کے پیغامات موجود تھے، گزشتہ روز دوسرے شمارے کی کاپی سامنے آئی تو کچھ سنجیدہ کام نظر آیا۔ ایف بی آر کے سابق افسران اور دیگر ماہرین پینل کا حصہ ہیں۔ پھر میگزین کے زیادہ تر معاملات خالد صاحب کے صاحبزادے محسن دیکھ رہے ہیں جو بذات خود ایک پُراسرار قسم کی شخصیت ہیں اور خالد صاحب کی طرح تخلیقی ذہن کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ باپ کے فرمابردار بھی ہیں۔ خالد صاحب نے اس میگزین کی کامیابی کیلئے بہت پُرامید ہیں۔فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ہمارے کلچر میں جہاں ٹیکس بچانے کے طریقے بتانے والوں کی بھرمار ہے وہاں ٹیکس ادا کرنے کی ترغیب دینا کتنا کامیاب ہوگا۔ لیکن بہرحال یہ میگزین عوام کو ٹیکس ادا کرنے کی جانب راغب کرنے، بروقت اور پورا ٹیکس ادا کرنے والے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ سرکار کے ساتھ ملکر ملکی ترقی کی ایک کاوش ہے۔ دعا ہے کہ نیک کام میں خدا تعالیٰ برکت ڈالے۔
Comments
Post a Comment