آہ ۔ پروفیسر حسن صاحب بھی چلے گئے


شمیم محمود


Prof Hassan Azeem Virk - Head of Urdu Dept
F. G. College for Boys H-9 Islamabad


میرے پاس الفاظ نہیں ہیں اور دل یہ بات تسلیم کرنے کو تیار بھی نہیں ہے کہ وہ شخص جس نے مجھے اردو زبان سکھائی وہ داغ مفارقت دے گئے ۔ یوں سمجھ لیں کہ ہم نے اردو کی الف ب ہم نے سیکنڈ ایئر میں سیکھی ۔اور میرے استاد پروفیسر حسن عظیم ورک اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔کرونا وائر س کی وباء کے ساتھ ہی عزرائیل بھی اپنی ڈیوٹی پر مامور ہے۔ مجھے نہیں معلوم یہ کہنا مناسب ہے لیکن جب عزرائیل ہمارے پاس آئے تو اس سے احتجاج ضرور کریں گے کہ ظالم ایسی بھی کیا جلدی تھی۔ابھی میڈیا کولیگز ارشد وحید چوہدری ، شاہ نواز موہل اور دفتر خارجہ کے سینئر سفارتکار وحید الحسن کی موت کے غم میں نڈھال تھے اور آنسو خشک نہیں ہوئے تھے کہ پروفیسر حسن عظیم ورک کی وفات کی خبر مل گئی ۔ کوئی دو ہفتے قبل جب میں ارشد وحید چوہدری ، شاہ نواز موہل اور وحیدالحسن کی وفات کے بعد کالم لکھا تو درستگی کیلئے پروفیسر حسن عظیم ورک صاحب کو بھیجا۔ جب واٹس ایپ سے جلد ی رسپانس نہ ملاتو میں نے فون کیا ۔ فون پر بات کرتے ہوئے ان کی آواز سے محسوس ہورہا تھا کہ سانس کا مسئلہ ہے ، میرے دریافت کرنے پر کہنے لگے کہ کرونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے اور علاج جاری ہے۔ پروفیسر حسن صاحب اسلام آبا دمیں فیڈرل کالج برائے فار بوائز ایچ نائن میں شعبہ اردو کے سربراہ تھے ابھی چند ماہ قبل انہیں سرکار نے گریڈ 20 میں ترقی دی تھی۔ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ گزشتہ ماہ جب تعلیمی ادارے پھر سے شروع کیے گئے تو سرکاری طور پر ملازمین کے 15تاریخ کو کرونا کے ٹیسٹ کروائے گئے مگر رپورٹ کا انتظار کیے بغیر 16تاریخ کو کلا سز میں تدریس کیلئے بھیج دیا مگر طلباءاور دیگر عملے کے کرونا ٹیسٹ نہ کروایا گیا۔ بعد ازاں کچھ پروفیسرز اور طلباءکا ٹیسٹ مثبت آیا۔ پروفیسر حکومت کے اس فیصلے پر نالاں تھے کہنے لگے اگر ڈاکٹرز فرنٹ لائن پر کام کررہے ہیں تو اساتذہ بھی فرنٹ لائن پر ہیں مگر حکومت کی جانب سے عدم توجہ کا شکار ہیں ۔ حکومت اگر اساتذہ کو اضافی الاﺅنس نہیں دے سکتی تو حفاظتی اقدامات کیلئے تو مراعات دی جائیں۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ بیماری کے دوران علاج معالجہ بھی اپنے خرچے پر کرنا پڑتا ہے۔ میرے پا س ان کی تکلیف کا کوئی حل نہیں تھا سوائے ہمدری کے چند بول ۔ اب کیا جائے حکومت تو ہر کام سے بری الذمہ ہے اور کوئی ذمہ داری لینے کو تیار ہی نہیں ، ہم خود ہی ہرکام کے قصوروار ہیں۔ پروفیسر صاحب کے ساتھ میرا تعلق لڑکپن سے ہے ۔ اس وقت فیڈرل گورنمنٹ ڈگری کالج ، گوجرانوالا چھاﺅنی میں سیکنڈ ایئر کے آخری چند ماہ باقی تھے کہ اردو کی استاد محترمہ درنجف زیبی کا تبادلہ ہوگیا تو حسن عظیم ورک اردو کے نئے استاد تعینات ہوگئے۔ حسن صاحب نے غالباً تعلیم مکمل کرکے پہلی بار پڑھانے کاسلسلہ شروع کیا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ کالج کے طلباء کے ساتھ جلدی مانوس ہوگئے ۔جوانی کے اوائل میں دھیمے مزاج مگر کہنہ مشق استاد کی شاگردی نصیب ہوئی ۔ سیکنڈ ایئر کے بعد اردو کا مضمون تو نہ پڑھتے تھے مگر حسن صاحب کی شاگردی جاری رکھی۔ موبائل فون تو موجود ہی نہیں تھے بلکہ ٹیلی فون کی سہولت بھی کم ہوا کرتی تھی۔ چھٹیوں کے دوران جب وہ واپس گاﺅں جایا کرتے تو ہمارا خط وخطابت کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور میں نے حسن صاحب کے لکھنے کے سٹائل کو کاپی کرنا شروع کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ میرے ایک رشتہ دار کیمرون سیموئیل میرے خطوط کو غالب کے خطوط کا نام دیا کرتے تھے۔میں ان کے اس وقت کے شاگردوں میں شاید واحد شاگرد تھا جو گوجرانوالہ سے انکی شادی میں شرکت کیلئے شیخوپورہ کے ایک گاﺅں دھامونکی ورکاں پہنچا۔ شادی کے بعد ان کی تعیناتی فیڈرل کالج ایچ نائن ہوگئی اور وہ وفاقی دارالحکومت منتقل ہوگئے ۔ اس دوران جب بھی ہمارا اسلام آباد کا چکر لگتا تو انہی کے ہاں قیام ہوتا تھا۔ 2003ء کے آس پاس جب روزگار کی غرض سے ہم نے بھی پہاڑوں کا رخ کیا تو ہمیں اس شہر میں کوئی نہیں جانتا تھا ایسی صورت میں پہلی واقفیت والی شخصیت یہی تھے۔اس دوران ان کی راہنمائی حاصل ہوتی رہی ، مجھے اکثر کہا کرتے تھے کہ میڈیا کی جانب چلے جاﺅں ’وہ دیکھوں ناں ، سہیل رانا ، ہر کانفرنس میں اگلی نشستوں پر براجماں ہوتا ہے“سہیل رانا ایف جی بوائز ہائی سکول میں ہمارے سے چار پانچ کلاس سینئر ہوا کرتے تھے ، لیکن میڈیا میں وارد ہونے کے بعد ان کے ساتھ باقاعدہ تعارف ہوا۔ جب میں نے میڈیا جوائن کیا تو میں نے پروفیسر صاحب کو کالم لکھنے کے لیے بہت اکسایا مگر و ہ فرق طبعیت کے مالک تھے۔ اردو کے کالم میں تصحیح کردیا کرتے ۔پنجاب کے اس جٹ پتر کی آنکھوں میں حیاء اور لہجے کی نرمی ، شائستگی اور دھیرجتا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔ ایسی معراج کو پہنچنے کیلئے چلے کاٹنے پڑتے ہیں۔ کرونا اور عزرائیل اپنے اپنے کام لگے ہوئے ہیں ۔ دیکھتے ہیں کہ کون جیتتا ہے ، ہرچند کہ کرونا اور عزرائیل کے اس وار نے گھاﺅ گہرا دیا ہے ، لیکن ہم بھی جیتے جانے کی قسم کھائے بیٹھے ہیں ۔ مرتا وہی ہے جو موت کو مان لے۔۔۔۔ مگر ہم جئیں گے ، یادوں میں جئیں گے ، آوازوں میں جئیں گے ، محبت کے احساس میں جئیں گے ۔ میرے پاس الفاظ ختم ہوگئے ہیں  اور درستگی کیلئے پروفیسر حسن عظیم ورک موجود نہیں ۔ آپ ان کی مغفرت کیلئے دعا کریں۔

Comments

Popular posts from this blog

کرسچین اسٹڈی سنٹر راولپنڈی میں کروڑوں روپے کی خردبرد اور جعلی اور بوگس دستاویزا ت جمع کروانے کا معاملہ، عدالت نے ڈی سی راولپنڈی کو انکوائری کرکے کاروائی کرنے کا حکم دے دیا

چرچ پراپرٹی بچاؤ تحریک نے اقلیتی مشترکہ املاک آرڈیننس ایکٹ 2020ء ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

Bishop Azad Marshal elected new head of the Church of Pakistan