مذہبی راہنماء اور عوام
شمیم محمود
آجکل ہمارے ملک میں اتنے سارے مسائل پر بحث ہورہی ہے اور ہر ایک موضوع اہم سمجھاجاتا ہے ۔ کچھ تو حالات پہلے ہی خراب تھے ، پھر کرونا وائرس کی وجہ سے پاکستان میں حالات مشکل تر ہوگئے اور دن بدن مزید مشکل ترین ہوتے جا رہے ہیں۔ جب سے اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے حکومت کے خلاف اتحاد قائم کرکے محاذ آرائی شروع کی ہے آئے روز نت نیا مسئلہ زیر بحث ہوتا ہے۔ مہنگائی ، بے روزگار، کاروبار میں مندی ، صحت ، تعلیم اور دیگر مسائل کی وجہ سے عام آدمی کیلئے زندہ رہنا مشکل ہوگیاہے مگر ایک مخصوص طبقہ حکمرانی کے چکر میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں، کھینچا تانی کے اس شور میں اصل عوامی مسائل کہیں دب کر رہ گئے ہیں۔بقو ل شاعر
ہنسو آج اتنا کہ اس شور میں
صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے
میڈیا سیاستدانوں کی روزانہ کی لڑائیوں اور بیان بازی پر مرکوز ہ ہے۔ ایسے میں ملک میں بسنے والی تین چار فی صد مذہبی اقلیتوں کے مسائل پر کون توجہ دے گا۔ محرومیوں کا شکار یہ لوگ ، نہ صرف مہنگائی اور دیگر مسائل سے پریشان ہیں بلکہ دوسرے درجے کے شہری ہونے کی وجہ سے ان کے مسائل میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے ۔ گزشتہ دنوں میں کراچی میں کم عمر بچی کے اغواء ، جبری تبدیلی مذہب اور جبری شادی کا مسئلہ سامنے آیا جس پر پورے ملک میں اقلیتوں خصوصا مسیحیوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ۔ جس کی وجہ سے عدالت نے صوبہ سندھ میں رائج قانون کے تحت کم عمری کا تعین اور زبردستی شادی کے خلاف فیصلہ تو دیا گیا مگر اصل مسئلہ وہیں موجود ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس واقعے میں ملوث تمام افراد بشمول جنہوں نے حقائق کا مسخ کیایا دانستہ طور پر ظاہر نہیں کیا انہیں سزا دی جاتی تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسی حرکات کرنے سے دریغ کریں۔ اگرچہ یہ واقعہ مین اسٹریم میڈیا پر زیربحث آیا تاہم بہت ساری خبروں کی وجہ سے اصل مسئلہ پر بات نہیں ہوسکی اور کمزور طبقے کی آواز اس شور میں دب کررہ گئی ۔ انہی دنوں میں وفاقی دارالحکومت کے انتظامی ادارے کیپیٹل ڈولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے سینٹری ورکرز اور سرکاری ملازم کے درمیان گفتگو کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی۔ہوسکتا ہے کہ اس شور میں آپ کو یہ آواز سنائی نہ دی ہو لیکن وہ لوگ جو ایسے واقعات کی وجہ سے گھر سے بے گھر ہوتے ہیں، جن کی بستیاں جلا کر راکھ کر ڈھیر بنادی جاتی ہیں ، اور جن کے بچوں اور عورتوں کو سربازار ذلیل اور رسواء کیا جاتا ہے۔ ان کے لیے یہ پیغام بہت اہم اور تکلیف دہ تھا۔ قصہ کچھ یوں ہوا کہ سی ڈی اے کے وہ افراد جو وفاقی دارالحکومت میں بغیر جدید آلات اور حفاظتی اقدامات کے بغیر شہر کو صاف ستھرا رکھنے کیلئے بہت کم معاوضے میں اپنی جان تک کھیلتے ہیں۔جہاں ان کا ہر سطح پرمسلسل استحصال ہوتا ہے اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کی بجائے سرکاری ملازم انہیں توہین رسالت کے کیس میںملوث کرکے رسواءکرنے کی دھمکیاں دیتا ہوا سنائی دے رہاہے۔ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد مقامی سیاسی قیادت نے اس مسئلے کو انتظامیہ کے سامنے پیش کیا۔لیکن وہی پرانی روایت برقرار رکھتے ہوئے انتظامیہ نے اس واقعے پر ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے سنی ان سنی کردی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ متعلقہ سرکاری ملازم نے ایک نئے ویڈیو پیغام کے ذریعے معافی مانگ لی ہے ہے اور مبینہ طور پر کسی غیر معروف مذہبی راہنماء کے ذریعے اس کی معافی قبول کرکے سرکار نے اسے معاف بھی کردیا ہے۔اس بات کا مطلب لیا جائے کہ خدا نخواستہ آئندہ کسی واقعے کی صورت میں کیا سرکار توہین رسالت کے مرتکب شخص کی معافی کو قبول کرکے اسے معافی دے دے گی اور کیاسرکاراس بات کی گارنٹی دیتی ہے کہ مسیحیوںکی بستیاں اب نہیں جلائی جائیںگی۔دوسری بات جو اس سے زیادہ تکلیف دہ اور سوچنے کی ہے کہ ایسے مذہبی راہنماءاس بات پر مسیحیوں کو جلاﺅ گھیراﺅ ، مارکٹائی اور ایسے کیس میں معافی دلوا پائیں گے۔ ویسے توآزادی کے بعد سے لیکر پاکستان میںبسنے والے مسیحیوںکی تعمیر وترقی میں مسیحی مذہبی طبقے کاکردارمشکوک ہی رہا ہے اور انہوں نے ہمیشہ اس رتنے کو اپنے ذاتی مفادا ت کیلئے استعمال کیا ہے ۔جہاں اس محروم طبقے کی پسماندگی کی وجہ ملک میں مروجہ غیر مساوی تقسیم اور مذہبی تفریق پر مبنی قوانین ہیں، وہیں ہمارے ملک کی مذہبی،سیاسی اور سماجی راہنماﺅں کی سیاہ کاریاں بھی پیش پیش ہیں۔ایک طرف تو ملک کا جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے غریبوں کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے وہیں اسی طبقے میں موجود ایسے کردا ر بھی موجود ہیںوہ ذاتیات کی خاطر غیرقوموں کے آلہ کار بن جاتے ہیں ایسے میں اس طبقے کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ یہ لوگ ذاتی مفادات کرتے ہیں وہی آپس میں لڑتے رہتے ہیں لہذا کسی بھی ایسے مسئلے میں ان کو شامل کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیں کہ کل کو یہی آپ کو بیچ رہے ہونگے۔
Comments
Post a Comment