Political parties and minorities wings in Pakistan
سیاسی جماعتیں، اقلیتی ونگ اور تنظیم سازی
شمیم محمود
ویسے تو مجھے سیاسی جماعتوں کے اقلیتی ونگ کی آج تک سمجھ نہیں آئی، حالانکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر سینیٹر کامران مائیکل کے ساتھ میرا قریبی تعلق ہے (یہ میر اخیال ہے)۔ لیکن یہ تعلق پارٹی کی بنیاد پر نہیں ہے اور اس طرح سے دیگر سیاسی جماعتوں میں اقلیتی راہنماﺅں کے ساتھ بھی تعلقات ہیں ۔لہٰذا میں نے کبھی ان کی پارٹی کے معاملات میں دخل اندازی کی کوشش نہیں کی۔ یہ کارنامہ خیر سے سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے سرانجام دیا تھا کہ پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کو ایوان میں جانے کے لیے بڑی سیاسی جماعتوں کے رحم وکرم پر ڈال دیا تھا۔(پھر کہتے ہیں کہ فوجی سیاست میں دخل اندازی نہ کرنے کا حلف اٹھاتے ہیں) بھلا ”تحریک لبیک پاکستان“ جس کے سربراہ غیر مسلم کے بارے میں جن خیالات کا اظہار اکثروبیشتر کرتے رہتے ہیں ایسے لوگ قانونی مجبوری کی بناء پر اقلیتی ونگ بنا بھی لیں تو ان کی نظر میں غیر مسلم ممبران کی کیا قدر ہوگی ۔؟ بدقسمتی سے یہی حال”جماعت اسلامی، جمعیت علماءاسلام“ جیسی خالصاً مذہبی جماعتوں کا ہے۔ ذہنی پسماندگی کی ویسے تو بہت سی مثالیں موجود ہیں لیکن صرف ایک کافی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف جو بظاہر لبرل جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے اس کے سربراہ اور خیر سے وقت کے حکمران عمران خان کی مذہبی انتہا پسندی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ موصوف نے وفاقی کابینہ میں کسی غیر مسلم کو حصہ نہیں بنا یا۔ اگرچہ اس سے قبل بھی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں موجوداقلیتی ممبران کا کوئی خاص کردار نہیں رہا تاہم دنیا کو دکھاوے کیلئے یہ کہا جاتا تھاکہ پاکستان میں اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ اب پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن،ق،ج) یا دیگر جماعتوں کے بار ے میں کیا کہہ سکتے ہیں۔ اب اقلیتی ونگز میں موجود مسیحی کارکنان کی اگر بات کی جائے تو بدقسمتی یہ ہے کہ جیسے مجموعی طورپر کھینچا تانی جاری ہے ویسا ہی کردار سیاسی جماعتوں میں بھی ہے۔ تقریباً ہرجماعت میں دھڑے بندی جاری ہے اور اس کی وجہ سے مجموعی مسائل کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس کردار کو میں گزشتہ چند ماہ کے دوران اس وقت قریب سے دیکھا جب وفاق میں پیپلز پارٹی کے اقلیتی ونگ کی تنظیم سازی جاری تھی ۔( ویسے سابق رکن قومی اسمبلی طلال چوہدری کی تنظیم سازی کا دکھ جان کر یہ کام تھوڑا مشکل دکھائی دیتا ہے)۔ قصہ یوں ہے کہ چونکہ کرونا کی وجہ سے لاک ڈون سے لیکر آج تک بیروز گار ی کے دن کاٹ رہے ہیں لہٰذا فرصت ہی فرصت ہے۔وقت گزاری کیلئے کچھ وقت دوستوں کے ساتھ نکل جاتے ہیں۔

ملک رحمت منظور ان میں سے ایک ہے جس کے ساتھ لگ بھگ ایک دہائی پرانا تعلق ہے ، میں ان دنوں روزنامہ” خبریں“ میں بطور رپورٹر کام کرتا تھا جب مجھے ہیلتھ کی بیٹ ملی تو موصوف سرکاری ہسپتالوں میں آکسیجن گیس کی سپلائی دیا کرتے تھے ۔ ان دنوں میری ایک سرسری سی ملاقات ہوئی ، مسیحی برادری سے تعلق ہونے کی بنا پر فطری طور پر نرم گوشہ موجود تھا, زیادہ شناسائی نہیں تھی البتہ ساتھی رپورٹر نیئر وحید راوت سے اس کی تعریف ضرور سنی تھی ۔ پھر مجھے ایک روز یہ سن کرحیرانگی اور دکھ بھی ہوا کہ سپریم کورٹ کے سومُوٹو ایکشن کے بعد ملک رحمت منظور صاحب کو دیگر ساتھیوں کے سمیت جیل بھیج دیا گیا ۔اب بات کو مذہبی رنگ دینا مناسب نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس ملک میں مذہبی بنیادوں پر نفرت اور درپردہ پیشہ وارانہ حسد موجود ہے۔ خیر اب حالت یہ ہے کہ ملک رحمت ”لکھوں ککھ ہوگیا اے “۔ اور ان دنوں پیپلز پارٹی ، اقلیتی ونگ کا سٹی صدر ہے۔ اب موصوف کے اہداف تو مجھے معلوم نہیں البتہ اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے اقلیتی ونگ کی تنظیم سازی میں مصروف ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے حالیہ اتحاد کے بعد اقلیتی ونگ کو یہ ٹاسک ملا کہ انہوں نے نہ صرف جلسوں جلوسوں میں بھرپور شرکت کرنی ہے بلکہ پارٹی کو مرکز میں مضبوط بنانا ہے لہٰذا ملک رحمت صاحب متحرک ہوگئے ۔اس سلسلے میں مجھے اس کے ساتھ پارٹی کے بعض لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا جس میں یہ امر تکلیف دہ ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں برساتی نالوں کے اردگرد اور کچی آبادیوں میں مخدوش حالات میں رہنے والے یہ لوگ اپنا معیارِ زندگی بہتر بنانے کیلئے اتنی توانائی صرف نہیں کرتے جتنی جدوجہد ایک دوسرے کی کھنچا تانی میں کرتے ہیں۔ اور یہ بات میں طنزیہ نہیں بلکہ دکھ کے ساتھ اور شرم دلانے کی غرض سے لکھ رہا ہوں۔ خیر ملک رحمت کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے مختصر عرصے کے دوران جڑواں شہر میں پیپلز پارٹی کے اقلیتی ونگ کو اکٹھا کردیا ہے اور اس کوشش میں مصروف ہے کہ نہ صرف پارٹی کی سطح پر متحد کیا جائے بلکہ کچی بستیوں میں بسنے والے مسیحیوں کی معاشی حالت کو بہتر کرنے کیلئے اقدامات کیے جائیں ۔ معلوم نہیں ملک رحمت اِس مقصد میں کتنا کامیاب ہوتا ہے اس کا انحصار تو وفاق میں موجود مسیحیوں کے تعاون پر منحصر ہے ۔جہاں تک ملک صاحب کو میں جانتا ہوں وہ دوستوں کے لیے جان نچھاور کرنے والا نَڈر اور بااعتماد دوست ہے۔ اور جو کام اس کے سپرد کیا جائے اسے پورا کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔لہذا وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح سے گاﺅں سے دارالحکومت میں پہنچ کر اُس نے محنت کرکے مقام حاصل کیا ہے یقینا وہ پیپلز پارٹی کے اقلیتی ونگ کی مضبوط کرکے دم لے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسے پارٹی کی سینئر قیادت کا اعتماد بھی حاصل ہے ۔خدا بھی انکی مدد کرتا ہے جواس کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری دعائیں ساتھ ہیں۔

Comments
Post a Comment