GDA illegal action in Samdar Katha lake
گلیات ڈولپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کی من مانیاں
تحریر: سردار عابدالہی
رئیل اسٹیٹ نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔جیسے جیسے آبادی بڑھتی ہے ویسے ہی رہائشی ضروریات بھی بڑھتی چلی جاتی ہیں ۔ جدید طرز رہائش کو لیکر ہمارے ملک میں بھی ہائی رائز بلڈنگز کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ آئے روز نئی رہائشی سکیموں کا افتتاح کیا جارہا ہے اور جس طریقے سے زرعی آبادی کو رہائشی علاقوں میں تبدیل کیا جارہا ہے اس سے خدشات لاحق ہوگئے ہیں کہ خوراک کی قلت پیدا ہوجائے گی۔ ہمارے ہاں میدانی علاقوں سے لیکر پہاڑی علاقوں بلکہ ریگستانوں میں آبادی کاری جاری ہے بلکہ قبضہ مافیا تفریحی مقامات کو رہائشی علاقوں میں تبدیل کر رہا ہے۔ پاکستان میں شمالی علاقہ جات تفریحی مقامات کیلئے بین الاقوامی سطح پر مشہور ہیں۔ یہاں قدرتی جھیلیں، آبشاریں اور پہاڑی علاقوں کی خوبصورتی دیکھنے کیلئے پاکستان کے دیگر علاقوں سے ہر سال لاکھوں افراد شمالی علاقہ جات کا رخ کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے مری اور اس کے ارد گر د کے علاقوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ مری اور ایبٹ آباد کے گرد ونواح میں درجنوں ایسے مقاما ت موجود ہیں جنہیں مقامی انتظامیہ کی عدم دلچسپی کی وجہ سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ اگر مناسب ترقیاتی کام کیے جائیں تو یہ علاقہ سیاحوں کی جنت بن جائے گا۔ تو بھی خوبصورت لوکیشن کی وجہ سے بعض مقامات نے خود بخود سیاحوں کی توجہ حاصل کرلی اور لوگوں نے وہاں کا رخ کرنا شروع کردیا ہے۔ ایسا ہی ایک مقام سمندرکٹھہ جھیل کے نام سے مشہور ہے ، یہ گلیات کے علاقے میں واقع ہے۔ مگر انتظامیہ اسے مزید بہتر بنانے کی بجائے موجودہ صورتحال میں بگاڑ پیدا کررہی ہے اور جس کی وجہ سے مقامی آبادی میں تشویش پائی جاتی ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ جیسے عوام نے سمندر کٹھہ جھیل کا رخ کرنا شروع کیا تو سیاحوں کی بڑھتی ہوئے تعداد کے پیشِ نظر مقامی آبادی کے افراد نے سیاحوں کی ضرورت کے مطابق چائے، پانی اور دیگر ضروریات بیچنا شروع کر دیں۔ اور اس طرح سے جلد یہ مقام لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ جیسے جیسے عوام کا رجحان اس علاقے کی جانب زیادہ ہوا مقامی افراد نے وہاں ڈھابے طرز پر ریستوران بناکر باقاعدہ چائے ، پکوڑے ، چپس ، منرل واٹر اور دیگر اشیاء بیچنے کا کام شروع کردیے۔ چونکہ یہ زمین مقامی افراد کی ملکیت تھی لہذا انہوں نے کچی ، پکی اینٹو ں سے دکانیں بناکر اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ لیکن جیسے ہی انتظامیہ کی نظر ان لوگوں پر پڑی تو انہوں نے سیاحوں اور مقامی افراد کے لئے سہولیات فراہم کرنے اور سمندر کٹھہ جھیل کو باقاعدہ سیرگاہ بناکر مزید خوبصورتی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ انہوں نے مقامی لوگوں کے لیے مشکلات مزید بڑھا دی۔ چند ہفتے پہلے گلیات ڈولپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) نے ناجائز تجاوزات کے نام پر ذاتی زمینوں پر تعمیر کیے ڈھابے گرا کر نہ صرف ان کا نقصان پہنچایا بلکہ سیاحوں کیلئے بھی مشکلات پیدا کردیں۔بنیادی طور پر ناجائز تجاوزات کسی بھی سرکاری زمین پر قبضہ یا منظور شدہ پراجیکٹ میں مقررہ زمین سے زائد زمین پر قبضہ کرنا ہوتا ہے۔جبکہ قیمت ادا کرکے خریدی گئی زمین یا وراثتی جائیداد پر تعمیر ات ناجائز تجاوزات کے زمرے میں نہیں آتا۔ البتہ متعلقہ اتھارٹی سے منظوری لینا ایک ذمہ داری بنتی ہے۔ یہاں ستم یہ ہوا کہ گزشتہ ایک دو ماہ کے دوران جی ڈی اے نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت سے سمندر کٹھہ جھیل کے آس پاس بنائے گئے ڈھابے ناجائز تجاوزات قرار دے کر گرادیے اور مقامی افراد سے روزگار چھینے کے ساتھ ساتھ ہزاروں روپے برباد کردیے۔ جو نہ صرف اختیارات کا ناجائز استعمال کہا جا سکتا ہے بلکہ ظلم بھی کہا جا سکتا ہے۔ جس پر مظلوم افراد نے مقامی قیادت کے ساتھ ملکر جی ڈی اے کے خلاف گلیات بچاﺅ تحریک کا اعلان کردیا اور پشاور ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق عدالت نے انتظامیہ کو کسی قسم کی کاروائی کرنے سے روک دیا گیا ہے۔چونکہ یہ معاملہ عدالت میں ہے لہذا بطور لکھاری ہم اس پر مزید کچھ کہنا مناسب نہیں ۔ البتہ یہ ضرور کہیں گے کہ ہمارے ملک میں ٹورزم کے ادارے کا مقصد سیروسیاحت کو فروغ دینا اور مناسب اقدامات کرنا ہوتا ہے۔لہذا اداروں کو چاہیے کہ انتظامیہ اور مقامی افراد کے ساتھ ملکر بہتری کیلئے لائحہ عمل تیار کرے اور نہ صرف مقامی افراد کو سہولت فراہم کریں بلکہ سیاحوں کے لیے بھی بہتر سے بہتر اقدامات کرے تاکہ عوام پرسکون ماحول میں اپنا وقت گزار سکے۔
Comments
Post a Comment